تحریر: اقراء اعجاز تھر پارکر صوبہ سندھ میں واقع ایک صحرا ہے جس میں تا حد نگاہ ریت ہی ریت ہے سنہری ریت اور کھجور کے درخت تھر کی پہچان ہیں ضلع تھر پارکر کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 13لاکھ پر مشتمل ہے جن میں سے تقریبا 60 فیصد مسلمان جبکہ 40 فیصد ہندو اور سکھ مذہب کے پیروکار ہیں حالیہ تحقیق کے مطابق تھر میں اموات کی شرح میں اضافے کی ایک اہم اور بڑی وجہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونا ہے
پورے علاقے میں 400 پلانٹ صاف پانی کے لگائے گئے جن میں سے 100 پلانٹ ناکارہ پڑے ہیں تھر کی 60 فیصد آبادی کا دارومدار اس وقت بارش کے پانی یا کنووں پر ہے تھر کا دوسرا بڑا مسئلہ قحط سالی ہے انگریز دور میں اگر کسی علاقے میں مون سون کے موسم میں دو بار بارش نہ ہوتی تو وہ اس علاقے کو آفت زدہ قرار دیکر حکومتی رسد کی فراہمی شروع کر دیتے لیکن اب ناکافی خوراک اور قحط سالی کی وجہ سے لوگ نہری علاقوں میں نکل مکانی کرنے پر مجبور ہیں
thar water
ایک نوزائدہ بچے کا وزن تقریبا 2.5 کلو گرام ہوتا ہے مگر تھر میں پیدا ہونے والے بچے کا وزن دو کلو گرام سے بھی کچھ کم ہوتا ہے اسی طرح تھر کی حاملہ عورتیں نہ صرف کم وزن کا شکار ہیں بلکہ وہاں کی اکثریت انیمیا یعنی خون کی کمی کا شکار ہیں ضلع تھر پارکر میں بچوں کی اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا یے اموات میں اضافے کی وجہ صرف خوراک میں کمی نہیں ہے بلکہ تحقیق کے مطابق بچوں کی زیادہ شرح اموات کے پیچھے بہت سے عوامل اور مسائل کارفرما ہیں ان عوامل میں خوراک کی مسلسل فراہمی نہ ہونا پینے کے صاف پانی کا فقدان . صفائی ستھرائی میں کمی خواتین کی ناخواندگی . غربت چھوٹی عمر کی شادیاں عوام کا زچہ اور بچہ کی صحت سے لاعلم ہونا ہے
دراصل علم میں کمی بہت سے مسائل کو جنم لیتی ہے اب تھر پارکر میں آئی آفت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر بھول جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ خشک سالی ایک قدرتی آفت ہے جس پر مناسب اور موثر منصوبہ بندی سے قابو پایا جا سکتا ہے ـ اس ضلع میں روتی بلکتی . ننھی جانوں کو زندگی کی رمق دینے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اس ضلع میں ڈاکٹرز اور دواوں کا بھی بہت فقدان ہے ایک تو عوام میں علم و شعور کی کمی ہے اور دوسرا ڈسپنسری اور ہسپتال بہت فاصلے پہ ہیں جہاں ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے تھر میں بھی امن و امان کی صورتحال پاکستان کے دوسرے علاقوں سے مختلف نہیں ہے وہاں کی روتی بلکتی زندگیوں کو کوئی مسیحا چاہیے مائیں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھتی ہیں وہیں دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کے ٹیبل انواع اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں
Water
جہاں تھر میں معصوم لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف ہمارے ہاں بارشوں کا سارا پانی ندی نالوں کی طغیانی اور سیلاب کا باعث بنتا ہے اصل میں تو سب بے حس ہو چکے ہیں کیا عوام اور کیا حکمران ــــپیٹ بھر کے کھانے والوں کو بھوک کی شدت کا اندازہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا میٹھا ٹھنڈا پانی پینے والوں کو پیاس کی شدت بھلا کیسے محسوس ہو سکتی ہے خدارا حکمرانوں اپنی آنکھیں کھولو حرص لالچ کی بندھی پٹی کو اتار پھینکو اس سے پہلے کہ ان لا چارماوں کے آنسو اپنی لپیٹ میں لے لیں کیونکہ مظوم کی آہ ساتوں آسمان چیرتی ہوئی اللہ تعالی کی بارگاہ میں جاتی ہے …