تحریر : اختر سردار چودھری ہر سال 20 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں چڑیوں کی حفاظت کاعالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر میں گھروں کی خوبصورتی کا باعث بننے والی چڑیوں کی تیزی سے ختم ہوتی نسل کو بچانے کے لئے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے ۔ہمارے کانوں میں اپنی میٹھی میٹھی آواز سے رس گھولنے والی اور صبح ہوتے ہی اپنی چہچہاہٹ سے لوگوں کا دل بہلانے والی چڑیا آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔چڑیا ایسا ننھا منا سا پرندہ ہے جسے بچے بڑے سب ہی پسند کرتے ہیں ۔اس پر کہانیاں ،فلمیں ،کارٹون ،محاورے ،گانے لکھے گئے ہیں ۔ایک گانا بر صغیر کے مشہور ترین گانوں میں سے ایک ہے ۔
ساڈا چڑیاں دا چنبا وے بابل اساں اڈ جاناں ساڈی لمبی اڈاری وے بابل مڑ نہیں آناں
( ہمارا چڑیوں کی جوڑی پے بابل ہم نے اڑ جانا۔ہماری لمبی اڑان ہے بابل واپس نہیں آنا) چڑیا دنیا کے سبھی ممالک میں پائی جاتی ہیں، لیکن ہم بات گھریلو چڑیا کی کر رہے ہیں جسے برطانیہ میں سات سال پہلے ہی گھریلو چڑیا کو ناپید ہوتے جانوروں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا۔ہم جن گھریلو چڑیوں کی بات کر رہے ہیں وہ بھورے گندمی رنگ کی ہوتی ہیں، ان کی دم چھوٹی اور چوڑی ہوتی ہے ۔ ان کو گھریلو چڑیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ گھروں میں اپنا بسیرا کرتی ہیں۔ گھروں سے چڑیا کی ہجرت بارے عظمٰی گوہر صاحبہ نے کیا خوبصورت منظر نگاری کی ہے ۔
میرے ننھے گھر کے اندر۔ اک ننھا سا پیڑ لگا ہے ۔
Sparrows
پیڑ کا سایہ تھوڑا ہے پر بہت گھنا ہے ۔ کچھ دن پہلے ، نیلے پیلے لال پروں والی دو چڑیاں۔ نازک نازک گھاس کے تنکے ڈھونڈ کے لائیں۔ اک گھر کی بنیاد بنا کر گھونسلا اک ننھا سا بنا کر۔ آج صبح وہ دونوں چڑیاں بچے لیکر۔ گھونسلا چھوڑ کے چلی گئی ہیں۔
شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی،فصلوں پر زہریلی ادویات کے چھڑکائوپکے مکانات کی تعمیر سے چڑیوں کے گھونسلے بھی ختم ہورہے ہیں ۔ ایک چڑیا اپنے گھر کو ڈھونڈھتی ہے دیر سے پہلے اس بجلی کے کھمبے کی جگہ اک پیڑ ہوتا تھا ایک بات سوچنے کی ہے کہ چڑیا گھر میں دیگر بہت سے جانور بھی ہوتے ہیں ۔مثلاََ شیر ،ہاتھی ،ہرن،اونٹ ،سانپ وغیرہ پھر بھی اسے چڑیا گھر کیوں کہا جاتا ہے ۔؟مجھے کہنا ہے کہ گھریلو چڑیوں کی نسل کے تحفظ کے لیے ہمیں اپنے گھروں میں ایسے انتظامات کرنے چاہئے ۔جہاں وہ اپنی سریلی چہچاہٹ سے ہمارے دل و دماغ کو تروتازگی بخشتی رہیں ۔