تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر تعلیم کا کردار انسان کی زندگی میں انتہائی اہم ہے کوئی بھی ملک اور قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی تعلیم قوموں کی زندگی میں اندھیروں کو دور کر کے روشنی لاتی ہے جس ملک یا قوم میں تعلیم یافتہ افراد کی شرح زیادہ ہوتی ہے وہ ملک، ریاست، قوم بہتر، مضبوط اور مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہمت، قانون کا احترام کرنے کا جذبہ ہوتا ہے تعلیم ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہے جو کسی بھی خون خرابے کے بغیر عوام میں فکری شعور اجاگر کر کے امن قائم کرتا ہے غرضیکہ تعلیم ایسا زیور ہے جو جانور کو انسان بنا دیتا ہے کیونکہ جاہلیت انسان کو جانور بناتی ہے تعلیم انسان کو رشتوں کی پہچان اور انکے احترام کا درس دیکر دنیا میں ممتاز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں تعلیم پر توجہ دی گئی وہ ملک ترقی کی راہ پر یوں گامزن ہوئے کہ ہر ایک کو پیچھے چھوڑ دیا۔
آج دنیا میں انکی مثالیں دی جاتی ہیں مگر ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے حکمرانوں نے تعلیم کو ہر دروازے تک پہنچانے اور پڑھا لکھا پاکستان بنانے کے بلند و بانگ دعوے تو کیے مگر ان پر عملی طور پر اقدامات نہ ہو سکے حکمرانوں نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے مختلف تجربات کرنے میں وقت گنوا دیا جس سے ہمارا تعلیمی نظام بگڑتا ہی چلا گیا چند سال پہلے تک پرائیویت سکولز کے مقابلہ میں سرکاری سکولز کو اولین ترجیح دی جاتی تھی وسائل نہ ہونے کے باوجود اساتذہ دیانت داری اور محنت سے طلباء و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے سرکاری سکولز ،کالجزسے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات فخر محسوس کرتے تھے۔
جدید دور کے ساتھ چلنے کے لیے اس پر توجہ دینے کی بجائے بنیادی ڈھانچے کا ہی بیڑہ غرق کیا جاتا رہا ۔جس طرح سابق گورنر خیبر پختونخوا ،مہتاب احمد خاں عباسی نے اعتراف کیا کہ ہمارے صوبے میں آج کے جدید دور میں نوے فیصد طلباء کی تعداد سائنس پڑھنے والوں کی تھی جبکہ انکو پڑھانے والے اساتذہ میں نوے فیصد آرٹس والے تھے یہ اعتراف دیگر صوبوں کے ذمہ داران کو بھی کر لینا چاہیے کیونکہ اس تباہی کی ذمہ داری انہیں پر عائد ہوتی ہے مگر وہ بھی کیا کرتے جو اسمبلیا ں قانون سازی کے لیے بنائی ہیں ۔جن میں منتخب ہو کر آنے والے سیاستدانوں نے قانون اور پالیسیاں بنانا تھیں ان میں منتخب ہو کر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت ہی ان پڑھ ہوتی تھی اور ان پڑھوں کی اسمبلی سے تعلیم کی ترقی کی خواہشات رکھنا پاگل پن ہی ہو سکتا ہے اسکی یہی وجہ آڑے آتی رہی کہ پاکستان میں تعلیمی نظام،مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور تک ہوتا گیا جس سے جان چھڑانے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے پرائیویٹ سکولوں کو باقائدہ فرنچائز کرنے کی اجازت دے کر اپنے کندھوں کا بوجھ اتار کر عوام کے سر پر رکھ دیا تعلیم کے میدان میں طبقاتی جنگ تو پہلے سے ہی تھی مگر پرائیویٹ سکولز کی آمد سے اس جنگ نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔
Government Schools
گورئمنٹ سکولز سے توجہ ہٹ جانے سے سرکاری سکولز تباہ و برباد ہو گئے وہی میٹرک پاس پاس اساتذہ ،غربت کی چکی میں پسنے والی غریب عوام کے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے لگے جن سکولز کے شاندار رزلٹ آتے تھے انہیں سکولز کے رزلٹ پچاس فیصد سے بھی نیچے چلے گئے دوسری جانب پرائیویٹ سکولز کے نام پر تعلیم کی تجارت کے بازار سج گئے بھاری فیسوں کے بورڈ آویزاں کرکے غریبوں کے بچوں کا داخلہ بند کر دیا گیا امیر اور غریب کے لیے پرائیویٹ سکولز میں کیٹگری بنادی گئی جہاں غریب،مزدور اپنے بچوں کا مستقبل ڈھونڈنے جاتا ضرور ہے مگر داخلہ، فیس،وردی،کتابیں ،دیگر اخراجات کی لسٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے بچوں کا تباہ مستقبل دیکھ کر خون کے آنسو بہاتا مایوس قدموں سے واپس آ جاتا ہے۔
پرائیویٹ سکولز کو جہاں اشرافیہ نے باقاعدہ کاروبار بنا لیا وہاں کچھ لوگوں نے چند کمروں پر مشتمل پرائمری،مڈل سکولز بھی گلی گلی، کھول لیے اور تعلیم کے ساتھ بھیانک مذاق کرتے ہوئے ،مڈل، میٹرک، اساتذہ کی منڈی لگا کرغریب کے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے میں جت گئے یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے ایسے سکولز چلنے کی وجہ گورئمنٹ سکولز میں تعلیم کا نہ ہونا،نامور پرائیویٹ سکولز کی آسمان سے باتیں کرتی فیسیں ہیں ایسے سکول سے پرائمری، مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی بنیاد اسقدر کمزور ہوتی ہے کہ آگے چل ہی نہیں پاتے جس سے نقصان کم آمدنی والے غریب والدین کا ہورہا ہے جو اپنے چشم و چراغ کو خوابوں میں ،ڈاکٹر، پائلٹ، سائنسدان میں دیکھ کر بڑھاپے کا خوشحال سہارا سمجھ کر بہت سی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں مگر انکی توقعات جلد ہی ٹوٹ جاتی ہے۔
ان حالات میں تعلیم عام کرنے کے وعدے ہوا تو ہو ہی رہے ہیں ساتھ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی کروڑوں روپے کی تشہیری مہم، گورئمنت سکولز کے اساتذہ کی بھاری تنخواہیں بھی خزانہ سرکار پر بوجھ ہیں اور تعلیم گھر گھر کی بجائے صرف اشرافیہ،دولت مندوں کے گھر کی ہو کر رہ چکی ہے راقم نے اس سے قبل بھی ایک تحریر میں ذکر کیا تھا کہ اگر ہم نے تعلیم کو عام کرنا ہے تو ہمیں سخت پالیسی ترتیب دینا ہوگی جسمیں پرھے لکھے اساتذہ کی بھرتی،گورئمنت سکولز میں لیب،ہر سبجیکٹ کے ٹیچروں کا میرٹ پرچنائو ،کر کے میٹرک اساتذہ سے چھٹکارہ حاسل کرنا ہو گا۔
Education in Pakistan
گھر گھر تعلیم پہنچانے کا خواب تب پورا ہو سکتا ہے جب ہماری قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے والوں کے لیے تعلیم کی شرط لازمی قرار دی جائے ،اور ایسا قانون بنایا جائے جسمیں منتخب کونسلرز سے لیکر منتخب ایم پی اے ایم این ایز،قومی و صوبائی اداروں کے سرکاری ملازمین ،ججز پر لازم ہو کہ وہ اپنے بچوں کو گورئمنت سکولز میں تعلیم دلوائیں گے کیونکہ جب کسی صدر پاکستان،وزیر اعظم، جج، وزرا،آئی جی،کمشنر،کا بیٹا گورئمنٹ سکول میں پڑھے گا تو مسائل کا بھی خاتمہ ہوتا رہے گا اور سکولز پر چیک اینڈ بیلنس بھی رہے گا ۔جب ایک مزدور کا بچہ اور وزیر اعظم کا بچہ ایک ڈیسک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے گا تو احساس کمتری ختم ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار میں بھی اضافہ ہوگا اور تعلیم کا رزلٹ بھی سو فیصد ملنے کے چانس یقین کی حد تک پید اہونگے اور تعلیم کے میدان میں جاری طبقاتی جنگ بھی ختم ہو جائے گی۔
وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسل کو عالمی معیار کے مطابق تیار کریں جس کے لیے ضروری جز تعلیم کا ہے جس پر توجہ دینا جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں چنائو کرتے وقت تعلیم یافتہ نمائندوں کو اسمبلی تک پہنچانا ہماری بھی ذمہ داری ہے پڑھا لکھا پاکستان بنانے کی ضرورت ہے اس لیے حکمرانوں کو گہری نہیند سے بیدار ہوکر گورئمنٹ سکولز کو آباد کرنا ہو گا تا کہ غریب اور سفید پوش طبقہ کی اولاد بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکے اور پاکستان کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے سکیں۔
اگر ایسا نہ ہو سکا تو بدقسمتی ہوگی اور صرف سولت مندوں کے بچوں کو تعلیم ملتی رہے گی جبکہ مزدور کی اولاد بھی مزدوری کرتی نظر آئے گی اور پڑھا لکھا پنجاب کے نعرے صرف کاغذی کاروائیوں تک ہی محدود رہیں گے۔دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیمی نظام اور نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس ذمہ داری کوکسی نہ کسی حکومت نے پورا کرنا ہی ہے تو پھر آپ کیوں نہیں ؟کہتے ہیں کہ جو کسی کو جان سے مارتا ہے اسے قاتل کہا جاتا ہے اور قاتل کی سزا موت ہے اور جو نسلوں کو جہالیت کے اندھیروں میں جھونک رہے ہوں، نسلوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہوں انکے لیے سزا کیا ہو گی؟ اسکا فیصلہ بھی آپ میں سے کسی کو کرنا ہو گا۔