تحریر: ملک محمد شہباز۔ کوٹ رادہا کشن گرمیوں کا موسم اور دوپہر کا وقت تھا۔ سورج جوبن پر تھا اور پوری آب و تاب کے ساتھ آگ برسا رہا تھا۔ میں کسی کام کی وجہ سے گھر سے نکلا اور گلی میں دیکھا کہ جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میںدرجنوں افراد موجود تھے۔ کچھ افراد دیوار کے سائے میں کھڑے تھے تو کچھ چوک میںترپال تان کر چارپائیاں لگائے بیٹھے تھے۔سب لوگوں کی نظریں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔اور ٹک ٹکی باندھے دیوانہ وار آسمان کی طرف دیکھتے جارہے تھے۔میں بہت حیران ہوا کہ ایسا کیا معاملہ تھا کہ سارے لوگ آسمان پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔چونکہ آگ برساتے سورج کی طرف ایک پل بھی دیکھنا آسان کام نہ تھا اس لیے میں سوچ میں پڑگیا کہ ایسی کیا بات ہوسکتی تھی جو سارے آسمان سے نظریں ملائے ہوئے تھے۔چلتا چلتا میں ایک گروپ کے پاس پہنچااور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ بھائی صاحب سب لوگ آسمان کی طرف کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
وہ صاحب انتہائی غصے سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے کہ کھڑے ہونا ہے تو خاموشی سے کھڑے ہوجائو ورنہ چلتے بنو۔ ایک توپہلے ہی پچاس ہزار کا نقصان ہورہا ہے اور دوسرا تم آگئے ہو سول و جواب کرنے۔اس شخص کی بات سن کر میں اور زیادہ حیران و پریشان ہوگیا کہ ایسا کیا معاملہ تھا کہ سب کی لوگوں کی نظریں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیںجبکہ اتنی تیز دھوپ تھی کہ آسمان کی طرف دیکھنا بہت مشکل ہوچکا تھا اور ساتھ اس آدمی کے پچاس ہزار کے نقصان والی بات نے مجھے مزید بے چین کر دیا تھا ۔میں بھی تپتی ہوئی دھوپ میں کھلے آسمان کے نیچے کھڑا آسمان کی طرف دیکھنے لگا مگر سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔میں چلتے چلتے تھوڑا آگے گیا تو وہاں ایک بزرک آدمی بھی آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا اور آنسو بہا تا دکھائی دے رہا تھا۔
Pigeon Flying
میں اس بزرگ کے پاس اس امید سے گیا کہ شاید وہ مجھے کچھ ضرور بتائے گا۔میں نے اس بزرگ کے پاس جا کر دھیمی آواز میں کہا کہ باباجی آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں اور سب لوگوں کی طرح آپ بھی آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔؟اس کی کیا وجہ ہے؟۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے۔بابا جی نے آنسو صاف کرتے ہوئے بڑے تحمل کے ساتھ جواب دیاکہ بیٹا سب لوگوں کا تو مجھے نہیں پتہ کہ وہ آسمان کی طرف کس مقصد کے لیے دیکھ رہے ہیں البتہ میں معصوموں پر ہونے والا ظلم دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔مگر سورج کی تپش اور روشنی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی دیر دیکھنے سے آنکھیں چندھیانہ شروع ہوجاتی ہیںاور نظر نہیں ٹکتی اس وجہ سے کچھ نہیں دیکھ پایا۔میں نے بابا جی سے پوچھا کہ بابا جی آخر معاملہ کیا ہے کہ آپ کے بقول معصوموںپر ظلم ہورہا ہے اور ایک شخص کہ رہا تھا کہ اس کا پچاس ہزار کا نقصان ہورہا ہے ۔کوئی کچھ بتا تا بھی نہیں اور سارے لوگ آسمان کی طرف نظریںبھی لگائے بیٹھے ہیں۔ بابا جی سے دوبارہ پوچھنے پر کہنے لگے کہ بیٹا آج ہمارے علاقے کے کبوتر بازوں نے کبوتر بازی کا ایک مقابلہ رکھا ہے۔
اس مقابلے میںصبح سے سارے کبوتر بازوں نے اپنے اپنے کبوتروں کواڑان کے لیے آسمان میں چھوڑا ہوا ہے۔اور کبوتروں کی اڑان کا یہ سلسلہ شام تک جاری رہے گا۔اور اس مقابلے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جس کا کبوتر پہلے اتر آیا وہ ہار جائے گااور سب سے آخر میں آنے والے کبوتر کا مالک جیت جائے گا۔جس کا کبوتر ہار جائے گا اس کو پچاس ہزار دینا پڑے گا اور جس مالک کا کبوتر جیت جائے گا اس کو بہت انعام ملے گا۔سب لوگ اپنے اپنے کبوتر کو آسمان پر دیکھ رہے ہیںاور جس کا کبوتر غائب ہے وہ پریشان ہے کہ اس کو پچاس ہزار کا جرمانہ بھرنا پڑے گا۔میں نے پھر سے پوچھا کہ باباجی اگر جیتنے والے کو انعام ملے گا اور ہارنے والے کو جرمانہ تو اس میں معصوموں پہ ظلم کیا ہے۔؟ ہار جیت کا معاملہ تو ہر کھیل میں ہوتا ہے ۔میری یہ بات سن کر بابا جی کہنے لگے کہ بیٹا ! کوئی ہارے یا جیتے مسئلہ اس بات کا نہیں فکر تو اس بات کی ہے کہ جو معصوم کبوتر آسمان میں اڑان کے لیے صبح سے چھوڑے گئے ہیںان کا کیا قصور ہے؟ ان کو کون سا انعام ملنا ہے۔؟آگ برساتے ہوئے سورج کی گرمی وہ معصوم کبوتر کس طرح برداشت کر رہے ہوں گے؟
Pigeon injection
بابا جی نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم اپنے کبوتروں کو اڑان سے پہلے نشہ آور ادویات کا استعمال کرواتے ہیں تاکہ معصوم کبوتر دیر تک آسمان میں اڑتے رہیں اور یہ ان معصوموں پر سرا سر ظلم ہے لیکن یہ ظالم کبوتر باز ذرا بھی احساس نہیں کرتے کہ اتنی شدید گرمی میں آگ برساتے سورج کے قریب جانا یعنی آسمان میں اڑنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ہم یہاں زمین پر کھڑے ہوکر سورج کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ نہیں پاتے تو آسمان میں اڑنے والے معصوم کبوتروں پر کیا بیت رہی ہوگی۔
ان ظالموں نے اگر کوئی کھیل یا مقابلہ رکھنا ہی تھا تو کسی اچھے موسم میں رکھ لیتے مگر ان ظالم کبوتر بازوں نے شدید گرمی میں معصوم کبوتروں کو اڑان کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔اور صبح سے ان معصوم کبوتروں کو ایک دانہ تک نصیب نہیں ہوا اور نہ ہی پانی کوئی قطرہ ان کی چونچ تک پہنچا ہے۔ایسے مقابلوں میں درجنوںمعصوم کبوتر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔بابا جی کی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا اور آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اس آگ جیسی گرمی میں اڑائے جانے والے معصوم کبوتروں پر واقعی ظلم ہے ۔ اورمیں سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میںکبوتر بازوں کے خلاف کوئی ایسا قانون ہونا چاہیے کہ ان ظالموں کو معصوموں پر ظلم کی ہر گز اجازت نہ دی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔