غازی ملک ممتاز قادری شہید۔۔۔۔۔واقعی ”ممتاز ” ہو گئے ہیں

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
قرآن کا دو ٹوک اور اٹل آفاقی فیصلہ ہے کہ مخلوق کی آوازوں کا قد پیغمبر انسانیت ،رسول ِ رحمتۖ کی آواز سے بلند نہ ہو’ وگرنہ سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور اِس کا شعور تک بھی نہ ہوگا۔ توہین ِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارتکاب کرنے والے کیلئے توبہ نہیں کیونکہ توبہ تو وہ تبھی کر سکے گا جب اسے اپنے جرم کا شعور ہوگا ،توہین رسالت ۖکی سزا کاقانون اَز روئے قرآن ثابت ہے … قرآنی آیات کی ایک طویل فہرست پیش ِ نظرہے،ترجمہ قرآن پاک سے ملاحظہ کر سکتے ہیں…(سورة الاحزاب ‘ آیت ٥٣،٥٧ ،٦١۔ سورة التوبہ ‘ آیت ٣٠، ٦١ ، ٦٥ ، ٦٦ ۔ سورة الذاریٰت ‘ آیت ١٠ ۔ سورة المائدہ’ آیت ٣٣ ۔ سورة المجادلہ’ آیت ٨ ۔ سورة الحجر ‘ آیت ٩٥ )۔

توہینِ رسالت ۖکی بابت قانون آج کے” بنیاد پرستوں”کی اختراع نہیں بلکہ گزشتہ ساڑھے چودہ صدیوںسے اُمّت ِ مسلمہ میں ایک مستقل دستورالعمل ہے …یہ الگ بات کہ اس قانون کوپاکستان کے نظامِ ِقانون کا حصہ بنے صرف دو دہائیاں گزری ہیں۔ مانا کہ ایک ڈکٹیٹر کے دور میں یہ دفعہ نافذ کی گئی لیکن 1992ء کی جمہوری پارلیمنٹ نے اسے قانون کا درجہ دینے کیلئے متفقہ طور پر قراردادمنظور کی تھی اور اسی پارلیمنٹ میں محترمہ بینظیر بھٹومرحومہ جیسی دانشور اور جہاں دیدہ سیاستدان بھی موجود تھیں۔

آزادی اظہار ِ کے لباس میں توہین رسالت کے مجرموں کی عریانی ٔ فکر ڈھانپی نہ جاسکے گی دہشت گردی کی مذمت کی آڑ میں غیرت ِ ایمانی قصہ ٔ پارینہ نہ بن سکے گی اقوام ِ عالم کو دہشت گردی کی تعریف متعین کرنا ہوگی ‘ بصورت ِ دیگر ہر گروہ اپنے مخالف گروہ کو دہشت گرد قرار دے کر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے گا دہشت گرد کی کم سے کم تعریف یہ ہوگی کہ کسی بھی مذہب ، رنگ ، نسل ، قوم اور قبیلے کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے دوچار کرنے والا دہشت گرد ہے۔ راج پال دہشت گرد تھا’ آزادی ٔ رائے کا علمبردار نہ تھا۔غازی علم دین ‘شہید تھے…اُن کے ردّ عمل کا تعلق دہشت گردی سے نہیں جوڑا جائے گا،577ہجری میں دو گستاخ عیسائی نوجوانوں کو سلطان نور الدین زنگی نے قتل کروایا پادری پرٹیکٹس کو قاضی اُندلس نے قتل کروادیا ،کیا اِن کو دہشت گرد کہا جائے گا ۔۔۔۔؟ گستاخ رسول یو حنا کو بھی قاضی اُندلس نے ہی قتل کروایا تھا ، 1934ء میں نتھو رام کو غازی عبدالقیوم شہید نے واصل جہنم کیا ۔

Ilm Deen Shaheed

Ilm Deen Shaheed

1936ء میں ڈاکٹر رام گوپال کو غازی مرید حسین شہید نے جہنم رسید کیا، 1937ء میں گستاخ رسول ۖ چرن داس کو میاں محمد شہید نے جہنم پہنچایا ،1962ء میں شر دھانند کو غازی قاضی عبد الرشید شہید نے جہنم کے گھڑے میں دھکیلا ،1938ء میں چنچل سنگھ کو صوفی عبد اللہ شہید نے قتل کیا 1942ء میں میجر ہر دیال سنگھ کو با با معراج دین شہید نے قتل کیا ،سر فروشوں کی ایک طویل داستان ہے جنہوں نے محبت رسول ۖ کا پیکر بن کر گستاخانِ رسول ۖ کو جہنم کی وادی میں دھکیلا ناموسِ وطن ‘ ناموسِ مذہب ‘ ناموس ِ رسالتۖ پر حملہ کرنے والا دہشت گردہوتا ہے ،بھیڑیا ہوتا ہے ،جنگلی درندہ ہوتا ہے وہ تو انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہے جبکہ ناموس رسالتۖ کی حرمت پر طیش میں آکر ردّ عمل ظاہر کرنے والا دہشت گرد نہیں، اپنے جان، مال اور ناموس کی حفاظت میں مارا جانے والا شہید ہے ،بلکہ قوم کا حقیقی ہیرو ہوتا ہے ڈاکٹر اظہر وحید درست فرماتے ہیں کہ ”ایک حملہ زبانی کلامی اور تحریری ہے ، دوسرا ردّ عمل میں آتشی و آہنی!! ایک جارحیت ہے ‘ دوسرا جارحیت کا ردّعمل ہے۔جب تک جارحیت اور مزاحمت میں فرق ملحوظ نہ رکھا جائے ‘ دہشت گردی کی متفقہ تعریف ممکن نہ ہوگی ”۔

اس معاملے پر اقوامِ عالم کے دانشوروں ، قانون سازوں اور منصفوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس سوال کا جواب کا تلاش کرنا ہوگا کہ آیادنیا میں رائج مذاہب کے ہادی وپیشوا کی تضحیک اور ان کے ماننے والوں کی دل آزاری کاشمار دہشت گردی میں ہوناچاہیے یا اِس تضحیک اور توہین کے ردّ عمل میں کسی شخص کا قانون ہاتھ میں لینا دہشت گردی سمجھا جائے؟ دنیائے عالم کا ہر مذہب کسی پیشوا کا رہین ِ منت ہوتا ہے۔ مذاہب ِ عالم شخصیات کے گرد گھومتے ہیں ان شخصیات سے درجۂ عقیدت ہی عقیدے کا باعث بنتی ہے۔بعض اوقات ایک ہی مذہب میں ایک ہی شخصیت کو مرکزو محور ماننے والے مختلف عقیدوں کے آسن بیٹھ جاتے ہیں… وجہ یہ ہوتی ہے کہ عقیدتوں کی شدت میںفرق ہے۔ عظمت ِ رسول کریم ۖ وہ واحد نقطہ ہے ‘ جہاں درجۂ عقیدت میں فرق ہونے کے باوجواُمت ِ مسلمہ کاعقیدہ ایک ہے۔ شانِ رسالت ۖ اور اس کی توہین کی بابت سب مکاتب ِ فکر کا نقطہ ٔ نظر ایک ہے۔حضرت واصف علی واصف کا ایک شعر ہے:۔

دین کیاہے’ آپ ۖ کی الفت کے سوا؟
دین کا بس اک یہی معیار ہے

اس معیار پر پوری مسلم اُمت متحد و متفق ہے۔ یہ بات محض محبت اور عقیدت ہی کی نہیں بلکہ ساڑھے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ اور فقہ اس بات پر متفق ہے کہ گستاخ ِ رسول ۖ کیلئے کوئی معافی نہیں۔ یعنی شریعت کا قانون شروع سے یہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر شیعہ’ سنّی’ وہابی ‘دیوبندی سب کے سب متفق ہیں۔ تقریباً ایک ہزار سال گزرے ‘حضرت ابوالفضل قاضی عیاض مالکی نے سیرت پرایک کتاب مرتب کی جو”الشفا… بتعریف حقوق المصطفیٰۖ” کے نام سے موسوم ہے۔ اسلامی تاریخ میں سیرت پریہ ایک قدیم اورمستند کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک سو (١٠٠) سے زائدصفحات پر مشتمل ایک پوراباب ہے ‘ جوقرآن وحدیث اور فقہ کی اسناد اور حوالوں کے ساتھ توہینِ رسالت ۖکی تمام ممکنہ صورتوں اوراُن کی سزائوں کی تفصیل میں لکھا گیا ہے۔ یہ کتاب تصوف کے حلقوں میں بھی مقبول و معروف ہے۔ اس کتاب کی جلد دوم کے باب چہارم بعنوان ”وجوہات تنقیص و توہین اور اس کے احکام ِ شریعہ” میںحضرت ابوالفضل عیاض لکھتے ہیں :”اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسلمانوں میں جو شخص بھی حضورۖ کی تنقیص ِ شان کرے ‘ یا آپۖ پر سبّ و شتم کرے ‘ اُسے قتل کر دیاجائے”۔

بعض سادہ لوح لوگ سیرتِ پاک سے عفو ودرگذر کی مثالیں دیتے ہیںاور اُمت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو درگذر سے کام لینے کا ”حکیمانہ” مشورہ دیتے ہیں …وہ سادہ دل ایک سادہ سانکتہ بھول جاتے ہیں کہ علم جس مرکز سے ملتا ہے اسی مرکز پر استعمال نہیں ہوتا۔عفو و درگذر کا علم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر تم پر کوئی ظلم وزیادتی کرے تو اسے ذاتی سطح پرمعاف کر دیا کرو۔ اس علم کا مدعا یہ ہر گزنہیں کہ اِسی کلیے کو علم دینے والے ہی پر استعمال کرنا شروع کردیا جائے ۔ نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو معاف کرنے کی سند پوری اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ جن اصحاب ِ رسول ۖ نے گستاخانِ رسولۖ کے سر قلم کیے’ کیا اُن پر کوئی حد جاری ہوئی؟ فتح مکہ کے موقع پر جب بدر اور اُحد کے قاتلوں کو بھی عام معافی دے دی گئی’ دربارِ نبوی ۖسے گستاخانِ نبوتۖ کے بارے میں یہ حکم تھا کہ اگر وہ کعبہ کے پردوں کے پیچھے بھی چھپے ہوں تو انہیں ڈھونڈ کر قتل کردیا جائے۔

Enemy of God

Enemy of God

گویا اپنے دشمن کو معاف کرنے کی تعلیم ہے’ دشمنِ خدا کو نہیں… اور دشمن خدا کون ہے ؟جو خداکے رسول ۖ کو اذیت دے … رسول ِخدا ۖکو اذیت دینا اِس کے سوا اور کیا ہوگا کہ منجانب ِ الٰہی تفویض شدہ منصب ِرسالت کی توہین کی جائے۔ درحقیقت جب کوئی توہین ِ رسالتۖ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ براہ راست غیض وغضب ِ الٰہی کو دعوت دیتاہے۔ وہ خالقِ کائنات کی غایت ِ تخلیق پر حملہ آور ہوتاہے۔ نبی کریم ۖ چونکہ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں ‘ اس لئے یہاں توہین کا ارتکاب کرنے والا گویامالک ِ کائنات کے اِس عظیم منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتاہے ‘ جس کے تحت اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اتارے۔ جو شہرِ علم ۖسے دُوبدو ہو جائے وہ ابوالحکم بھی ہو تو ابوجہل قرار پاتا ہے۔ یہ روز مرّہ کی حقیقت ہے کہ اِس شہر کے در حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کو پشت کرنے والے جہل اور گمان کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں ۔ شہرِ علم ۖتو دُور کی بات…شان ِرسالت ۖ کی طرف بھی اگرکوئی اپنے گمان کی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے تواُس کی فہم میں ٹیڑھ پیدا ہو جاتا ہے ‘ اُس کی عقل کو گرہن لگ جاتاہے …اُس کے ادراک کو گرہ لگ جاتی ہے…

وہ دوست اور دشمن میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جس قانون کا عنوان ”قانونِ تحفظ ِ ناموس ِ رسالت ۖ ” ہے اس قانون کامذاق اُڑانا اورپھر علی الاعلان ٹی وی و دیگرپبلک پلیٹ فارم پرنازیبا کلمات کہنا …اس قانون کو ”کالاقانون ” (معاذاللہ )قرار دینا’ اگر توہین کے زمرے میں نہیں آتاتو پھر ادب کی سب کتابیں نئے سرے سے لکھنی پڑیں گی ۔ جس طرح سیرت النّبی ۖ پر مرتب کی گئی کسی کتاب کو توہین آمیز الفاظ سے موسوم کرنا توہینِ رسالت ۖکے زمرے میں آتا ہے …(خواہ ‘ اس کتاب میں منقول واقعات کی صحت اور مؤلف کی علمی سطح قابل بحث بھی ہو ) … اسی طرح ایک قانون جسے شانِ رسالت ۖکے ساتھ ایک نسبت دے دی گئی ہو ‘ اس کے متعلق توہین آمیز کلمات ادا کرنا توہینِ رسالتۖ ہی تصور ہوگا۔

توہین ِ رسالت کے قانون کے بارے میں نام نہاد دانشوران ِ قوم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ قانون تو انسان کا بنایاہواہے’اس لئے اِس کے بارے میں کسی بھی انسان کو کچھ بھی کہنے کا اختیار حاصل ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ قانون انسان ہی کابنایا ہوا ہے تو پھر مسجد بھی توانسان ہی بناتا ہے ۔ کیا مسجد کی بے حرمتی کرنے والا اس لئے بری الذمّہ ہے کہ مسجد انسان کی بنائی ہوئی ہے ۔بے حرمتی کرنے والے کو کوئی سزا نہ دی جائے اور اُسے کھلی چھٹی دی جائے جب بھی اُس کا جی چاہے اللہ کے گھر (مسجد ) کی بے حرمتی کر ڈالے ۔۔۔۔۔۔ قرآن پاک بھی انسانوں ہی کے پرنٹنگ پریس سے شائع ہو کر نکلتاہے …گویا اِس دلیل کی رُو سے کوئی بھی قرآن کے اَور اق روندتا پھرے ،پوچھنے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔۔۔؟ ۔

کہا گیا کہ اس قانون میں سقم ہیں ‘ لوگ ذاتی دشمنی کی بنا پر ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمے درج کروا دیتے ہیں ۔ اگر قانون کی کوئی دفعہ محض اس خدشے کے پیش نظر ختم کرناہی قرین ِ دانش ٹھہرا’تو پاکستان پینل کوڈ میں درج سب دفعات کودفع دور کریں … کہ لوگ ذاتی دشمنی کی بنا پرقتل ‘چوری’ ڈاکے’ اغوا کے جھوٹے مقدمے بھی آئے روز درج کرواتے ہیں۔کیا ہمیں اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں ؟ عدالت کا کام ہے کہ سچ اور جھوٹ کی جانچ کرے، جرم ثابت ہونے پر سزا دے، بے گناہ کو بری کرے اور بہتان لگانے والے پر حد جاری کرے۔عدالت عدل کرنے پرمامور ہے
ایک ٹاک شو میں گورنمٹ کالج لاہور کے ایک طالب علم نے جب گورنر سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ تو قرآن پاک میں فرمارہا ہے: انّا کفینٰک المستھزئین ( بے شک ان تمسخر کرنے والوں سے بدلہ لینے کیلئے ہم کافی ہیں) … توجناب ِ گورنرآپ توہینِ رسالت ۖکے قانون کا انکار کیسے کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں گورنر نے ہنسی اڑاتے ہوئے آن دی ریکارڈکہاکہ جب اللہ کافی ہے تو پھر قانون بنانے کی کیاضرور ت ہے۔( آف دی ریکارڈ ٹھٹھے مخول کاتو ذکر ہی کیا) گویالوگوں کی یہ ”خوش فہمی” بھی دُور ہوئی کہ شایدوہ اِس قانون کے خلاف نہیں ‘صرف اس کے پروسیجرل میکنزم(procedural mechanism) کے خلاف تھا۔ گورنر اور اس کا دفاع کرنے والوں کی دلیل کے مطابق جب توہین ِ رسالت ۖسے نمٹنے کیلئے اللہ کافی ہے تو بین الاقوامی میڈیا پر خواہ فلمیں بنیں یا خاکے شائع ہوں’ اہل اسلام کواحتجاج کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے !!یہی وجہ ہے’ آج گورنرکی ”یاد” میںشمعیں روشن کرنے والا طبقہ غیر ملکی میڈیا پر ہونے والی توہین ِ رسالت کی قبیح ترین شکل پر بھی چپ سادھے ہوئے ہے اور آزادی ٔ اظہار کے مغربی تصور کی علم برداری کرتا ہوا نظرآتا ہے۔اخلاق اور نصیب دونوں سے محروم لوگوں کی دلیل ہے کہ ”مغرب کا اپنا اخلاقی تصور ہے، ہمیں اس سے کیا؟” استغفراللہ!! غلام ذہن اپنی سوچیں بھی اپنے آقائوں سے مستعار لیتے ہیں!!۔

حضرت واصف علی واصف ایک خط کے جواب میں فرماتے ہیں ”تحقیق کے دور میں جب کبھی سوال پیدا ہوتو اس کے جواب کیلئے مناسب انسان کی طرف رجوع کرناہی سوال کا آدھا جواب ہے۔گوشت کا بھائو قصائی کی دکان سے … دینی مسائل علماء سے … ذاتی اور روحانی مسائل فقیر سے پوچھنا بہتر ہے” ۔ظاہر ہے طبّ کا معاملہ ہو تو کسی سندیافتہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتاہے، کسی ڈیم یا پُل کی صحت کے متعلق ماہرانہ رائے مطلوب ہو توانجینئرزسے دریافت کیا جاتاہے’ معاشیات کا مسئلہ ہو تو ماہرینِ معاشیات سے رابطہ کیاجاتاہے’ قانونی نکتہ زیرِبحث ہو تو قانون دانوںسے مشاورت کی جاتی ہے …بس ہمار ے لیے دینی مسائل ہی اتنے کم اہم رہ گئے ہیں کہ ہر شعبے کا دانشوراِن پر ماہرانہ تبصرہ کرنا اپناپیدائشی حق تصور کرتاہے ،اور یہاں ”میں نہیں جانتا” کہنے کی اخلاقی جرات بہت کم لوگوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں شرع و فقہ کا علم رکھنے والے ماہرین یعنی علماء نے اس معاملے میں کیا کہا … پانچ سو سے زائد علماء کا فتویٰ کہ گورنر گستاخ ِ رسول ہے اور جو اسے گستاخ نہیں سمجھتاوہ بھی گستاخ ہے …

بادشاہی مسجد کے امام ‘ داتا دربار مسجد کے امام ‘ یہاں تک کہ گورنر ہائوس مسجد کے امام صاحب اور دیگر تمام علماء نے گورنر کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا …آخر کیوں ؟ صرف اور صرف اس لئے کہ اُن کی نظر میں گورنر گستاخ ِ رسول تھا !! …یادرہے کہ یہ علماء کسی گلی محلے کے مولوی نہیں ‘بلکہ مستند جامعات سے فارغ التحصیل اورمحکمہ اوقاف کے حاضر سروس گزٹڈ آفیسر تھے ، گستاخ گورنر کے تو جنازے کی صفیں بھی سیدھی نہیں تھیں کسی کا منہ مشرق کی طرف تو کسی کا شمال کی طرف تھا اور 20سیکنڈ میں جنازہ پڑھایا گیا قوم گستاخ گورنر کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا بھی گھیرائو کرے ، محبوب ِ سبحانی ، شہباز ِ لا مکانی حضور شیخ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کے دعویدار یوسف رضا گیلانی ، مدینة الاولیاء ملتان کی ایک بڑی گدی کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی جنازہ میں شرکت کی قوم ایسے چہرے بھی پہچانے اور اِن کا بائیکاٹ کرے۔

یہ واقعہ راہ چلتے ہوئے اچانک کسی کو مارڈالنے کاواقعہ نہیں ( ایسا نہیں کہ بقول شخصے ‘شہر کاشہر مسلمان بنا پھرتا ہے’ )بلکہ یہ واقعہ اپنی تمام ترجزئیات کے ساتھ ایک مقدمے کی طرح معاشرے میں چلتا رہا اور ساکت لفظوں اور متحرک تصویروںکی شکل میں کئی ماہ سے ریکارڈہوتارہا۔ گورنر کا یہ اعلان کرنا کہ قانون ِ تحفطِ ناموسِ رسالت ۖایک ”کالا قانون” ہے’ ایک علی الاعلان بغاوت تھی ‘ قانون سے ‘ آئین سے ‘ دین سے… یہ ایک سول گورنر کی طرف سے آئین کی سول نافرمانی تھی۔ یہ ایک جمہوری حکومت کے گورنر کی طرف سے شعائراللہ کی توہین تھی … اگر اس توہین پر عوام خاموش رہتے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ اس توہین کو جمہورکی تائید حاصل ہے۔۔

جو شخص منصب میں جتنابڑاہوتاہے ‘ اس سے آئین اور قانون کی پاسداری کی توقع بھی اتنی ہی زیادہ کی جاتی ہے جس آئین اور قانون کے تحت ایک گورنر کو گورنری دی جاتی ہے وہ اِسی قانون کی عدالتوں کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیتاہے اور ایک ایسے مجرم کی پشت پناہی کیلئے اپنے اسکواڈ سمیت میدان میں کود پڑتاہے’ جسے آئینِ پاکستان کے تحت قائم عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔ باوجودیکہ ابھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں قانون کے مطابق مجرم کو خود اپیل کرنے کا حق حاصل تھا’ گورنر نہ صرف یہ کہ مجرم کی حمایت میں بیان دیتاہے بلکہ اُسے جیل سے نکال کر اپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کرتا ہے ‘ اُس کی حوصلہ افزائی کرتاہے اور دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے اعلان کرتاہے کہ وہ مجرمہ کو عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا معاف کروا دے گا۔وہ یہ بھی اعلان کرتاہے کہ مجرمہ کی درخواست لے کروہ دارلحکومت خود جائے گا … اُس نے گلوبل ویلج میں بیچ چوراہے کے اپنے ہی ملک کے قانون کا مضحکہ اُڑایا! پبلک آفس ہولڈر کا کوئی قول و فعل اس کا ذاتی عمل نہیں رہتا ، وہ پبلک کیلئے ایک نظیر بنتا ہے …اس لئے ایک سیکولر معاشرے میں بھی عوام اس کے قول وفعل پر گرفت کرتے ہیں۔ کیا گستاخ ِ رسول کی اعانت کرنا گستاخی نہیں ؟ … اور گستاخ بھی وہ ‘جس پر محض الزام ہی نہیں’ عدالت میں جرم بھی ثابت ہوچکاہو ۔ جس طرح ایک مجرم کی اعانت کرنا قانو ن کی نظر میں ایک جرم ہے’ اسی طرح گستاخ ِ رسو ل کا دفاع کرنابھی گستاخی کے زمرے میں ہے اور یہاں یہ سوال بھی پید ا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ایک مرزئی اور قادیانی شخص کو گورنر کے اہم عہدے پر کیسے مقرر کیا گیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کون روشنی میں داخل ہوتاہے اور کون” روشن خیالی” میں … شانِ رسالت ۖپر سمجھوتہ کرنے والے زمانے کی دست برد کا شکار ہو جائیں گے … وہ اُس عرفان سے خود کو محروم کر لیں گے جوہمیشہ کیلئے ہوتا ہے اور جسے ہوجائے اُسے بھی ہمیشگی عطاکردیتاہے۔دانش ِ برہانی کا تقاضا ہے کہ جہاں ذرا سا بھی شائبہ ہوکہ شانِ رسالت ۖکے حوالے سے بے ادبی کا احتمال پیدا ہورہاہے ‘ اس ماحول سے خود کو فوراًالگ کر لیا جائے ۔سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا فرمان ہے : ” بے ادب خالق اور مخلوق دونوں کا معتوب ہے”۔ماہ وسال کو زیادہ گردش میں نہیں جانا پڑے گاکہ تاریخ کی عدالت بھی اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ تاریخ زمانے کا عمل بھی ہے اور عدل بھی…اور زمانہ برہان بھی ہے اور فرقان بھی!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غالباََ نوے کی دہائی کا واقعہ ہے کہ قا نون ِ انسدادِ تو ہین رسالت پر حکو مت اور محبانِ رسول ۖکے در میان خاصہ تنازعہ رہا عین وقت پر محبانِ رسول ۖ کی گرفت سے حکومت پا کستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بعد از بسیار خرابی حکومت کو عوام کے محبت بھرے جذبات کے آگے سرنڈر کرنا پڑا تھا اور اس معاملے کا سب سے منفرد پہلو یہ تھا کہ اس میں کسی نوعیت کی ”سیاست ” کو داخل نہیںہو نے دیا گیا تھا اور اپوزیشن کی خواہش اور کسی حد تک کوشش کے با وجود اس مسئلے میں اسے دخل دینے کا موقع نہیں دیا گیا اور خالصتاََ قانونی اور دانشورانہ سطح پر حکومت کو قائل کیا گیا تھا۔

Court

Court

اس کی اپروچ بودی ، نقطہ نظر لغو اور استدلال انتہائی کمزور ہے اس وقت جب یہ مسئلہ عروج پر تھا تو رحمت مسیح اور سلامت مسیح کا کیس عدالت کے زیر ِ سماعت تھا عدالت نے 9 فروری 1995ء کو رحمت مسیح اور سلامت مسیح کو جرم ثابت ہونے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 Aاور 295Cکے تحت سزائے موت اور 25 ہزار روپے فی کس جرمانہ کی سزا سنائی تھی اس سزا پر اُس وقت کی ”کرائم منسٹر آف پاکستان ”نے اپنے کریمنل رد عمل کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ”توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کے فیصلے پر مجھے حیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی ، میں اس فیصلے پر ذاتی طور پر نا خوش ہوں ، پاکستان بچوں سے متعلق سنگین سزائوں خصوصاََ موت کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر چکا ہے یہ امر باعث حیرت ہے کہ 14سال کے بچے کو سزائے موت دیتے ہوئے اس چارٹر کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا ، عدالت آزاد تھی دونوں ملزموں کے وکیلوں کو پورا موقع ملا انہیں چاہیے تھا کہ اس چارٹر کا حوالہ دیتے یہ فیصلہ ایسے وقت ہوا جب اقوام متحدہ کے سلسلے میں ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے یہ فیصلہ بہت غلط موقع پر ہوا ہے میں قانون رسالت ۖ کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہوں ”ذرا سوچیے پاکستان کی پرائم منسٹر نے ایسا بیان داغ کر واقعی ”کرائم منسٹر ” ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔؟۔

ملزمان نے اس فیصلہ کے خلاف عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی وساطت سے دفعہ 410کے تحت 13فروری 1995ء کو لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی ،کیس کی سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر ، حنا جیلانی ، انیس فیض ، عابد حسن منٹو ، آئی اے رحمان ،ڈاکٹر مبشر حسن ،طارق سی قیصر اور مدیحہ گوہر عدالت میں ہجوم کرتے رہے اور اس کیس کا ہر طرف چر چا تھا حتیٰ کہ پہلوانوں کے شہرگو جرانوالہ کے انتہائی چھوٹے اور پسماندہ ترین قصبے ”کوٹ لدھا ” کی مضافاتی بستی ”رتہ دھوتڑ ”میں رو نما ہونے والے تو ہین رسالت کے واقعے پر یہاں کی مسیح برادری کے مقابلے میں برطانیہ کے اعلیٰ حکام اور امریکہ کے قونصل جنرل کو سب سے زیادہ تشویش ہوئی تھی اور بی بی سی ، فوکس نیوز ، سی این این ، واشنگٹن پوسٹ ، ٹائم میگزین ، ہیرالڈ نما میڈیا اس کیس کو بین الاقوامی ایشو کے طور پر برابر نشر اور شائع کیے چلا جا رہا تھا گو جرانوالہ کی عدالت میں امریکی اور برطانوی افسران گھنٹوں مو جود رہتے تھے جن افسروں کو لاہور کے مال روڈ پر چلتے ہوئے ہر وقت موچ آنے کا ڈر رہتا تھا وہ نازک اندام گوجرانوالہ کی کھنڈر نما سڑکوں اور کچے پکے راستوں پر ہنسی خوشی چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے اور اس کیس پر سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی اور اس فیصلے پر اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مر حومہ تڑپ اُٹھی تھیں اور اُنہیں شدید ذہنی صدمہ اور قلبی دُکھ ہوا تھا جس کا اظہار کیے بغیر وہ نہیں رہ سکتی تھیں۔

حالانکہ اِن دنوں وہ مصر کے دورہ پر تھیں جہاں دُختر مشرق نے اپنا لبرل اور ماڈریٹ امیج بلڈ کر نے کے لیے فخریہ لہجہ میں یہ بھاشن دیا تھا کہ ”میں مسجد اور چرچ کی بیٹی ہوں اور ان کی نمائندگی کرنے آئی ہوں ”ایک طرف اگر وزیر اعظم مرحومہ کو اس سزا پر دُکھ ہوا تھا تو خدا گواہ ہے کہ ہر اس شخص کو جس کے دل میں ذرہ بھر حُب رسول ۖ اور عظمت رسول ۖ کا جذبہ تھا وزیر اعظم مرحومہ کے تبصرے پر بہت رنجیدہ اور پریشان ہوا تھا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تبصرہ اور ردِ عمل ایک مسلمان وزیر اعظم کا ہے با لکل اسی طرح جب آج بھی ناموس ِ رسالت ۖ کی بات ہوتی ہے تو جہاں ڈیڑھ ارب مسلما نوں کے جذبات ایک طرف ہوتے ہیں تو اس پر مغرب کی گود میں بیٹھنے والے نام نہاد مسلمانوں کے جذبات ہنود و یہود کے جذبات سے ملے ہوئے ہوتے ہیں پوری اُمت مسلمہ(جس میں مفتیان ِ عظام ، سکالرز ، شیخ الحدیث ، مفسرین ، جینوئن دانشور ، قلم کار سمیت سبھی شامل ہیں ) سبھی ناموس رسالتۖکے قانون کو قرآنی ، ایمانی قانون کہہ رہے ہیں مگربونے اینکرز ، بِکائو دانشور بلکہ جانور ،دین سے نا بلد سیاستدان بلکہ حیوان،دیہاڑی دار خطیب اور بے ڈھنگے ادیب ناموس رسالت ۖ کے قانون میں تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں بظاہر جملے میں نے سخت استعمال کیے ہیں مگر کیا کریں ہم وہ دیوانے ہیں جو ”نعلین ِ مصطفیٰ ۖ کی نوک کودنیا و مافیہا کی سلطنتوں اور شاہی اعزاز سے بھی افضل سمجھتے ہیں ”صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی نے خوب کہا کہ ” ہر انسان آکسیجن سے سانس لیتا ہے۔

لیکن مومن کی سانس کا دوسرا نام عشق رسول ۖ ہے ہر انسان اس کرہ ارضی پر پانی کے سہارے زندہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک مومن حُبِ رسول ۖ کی آب و ہوا میں زندہ رہتا ہے ، ہر انسان کے پہلو میں دل دھڑکتا ہے لیکن مومن کے دل کی دھڑکن یادِ رسول ۖ ہے ہر انسان کی رگوں میں خون دوڑتا ہے لیکن ایک مومن کی رگوں میں محبت رسول ۖ گردش کرتی ہے” اس دھرتی پر زندہ رہنے والا ہر انسان آزادی کا خواہش مند ہے لیکن ایک مومن ہے جو ہمیشہ غلامی رسول ۖ کا طلب گار رہتا ہے ہر انسان ہمیشہ اپنی ناموس کی فکر میں رہتا ہے لیکن مومن اپنی جان کو حرمت رسول ۖ پر لُٹادینے کو اعزاز سمجھتا ہے ۔

نماز اچھی ،روزہ اچھا ،حج اچھا ، زکواة اچھی
مگر میں با وجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل مرا ایماں ہو نہیں سکتا

اگر چہ مسلمان ہزار بار سرِ راہ لوٹے گئے ، یورپ انہیں لوٹ کر لے گیا ، امریکہ لوٹ رہا ہے لیکن جب خود لٹانے پر آتے ہیں تو اپنا سب کچھ ناموس ِ مصطفیٰ ۖ پر لٹا کر بھی خوش نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں کہ

کروں تیرے نام پر جاں فدا ، نہ بس ایک جاں ، دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیںجی بھرا ، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

Mumtaz Qadri Shaheed

Mumtaz Qadri Shaheed

کیونکہ مسلمان کہکشاں کو آپۖ کے قدموں کی دھول تصور کرتے ہیں اربابِ عشق کلی کی چٹک کو تبسم رسول ۖ کا صدقہ سمجھتے ہیں صاحبانِ نظر کے عقیدے میں آبِ حیات آپ ۖ کے تلووں کا دھوون ہے ، دیارِ حبیب ۖ کے کوچے جنت کے باغیچے ہیں ، اس پر کوئی بدبخت اپنی خباثت کا اظہار کرے اور گورنر اس کو شاباش دے تو پھر کسی نہ کسی ”غازی علم الدین ‘ ‘ کی رگِ عشق ضرور پھڑکے گی اور قانون انسدادِ توہین رسالت ۖ کے قا نون کو کالا قانون کہنے والے کو واصل جہنم کرنا لازم ہو گا کیونکہ شہید ناموسِ رسالت ممتاز حسین قادری نے نا موس رسالت ۖ کی حفاظت قانون سے نہیں بلکہ اپنے خون سے کرنے کا عزم کر کے اور عملاََثابت کر دکھایا کہ دھرتی ابھی بانجھ نہیں ہوئی بے شک یہاں پر ”غامدیت ” اور ”روشن خیالی ” کے پیرو کار بھی مو جود ہیں مگر عاشقان ِ رسول ۖ کی کمی بھی نہیں ہے بلکہ اب تو ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمة اللہ علیہ کی شہادت اور شاندار ، ریکارڈ ساز جنازہ کے بعد تو ہر عاشق رسول ۖ شہادت کی آرزو کرنے لگا ہے ،یہود و ہنود کے ٹکڑوں پر پلنے والا لیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نماز جنازہ کا عظیم الشان اجتماع اپنی سکرینوں اور صفحات پر نہیں دکھایا مگر اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب ۖ کے پیارے عاشق کے جنازہ کی تشہیر اس انداز سے فر مائی کہ دنیا کے ہر پیر و جواں ، مرد و زن کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ آج تک چشم فلک نے جنازہ کا اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا ، ہمارے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا تھا اگر دو چار ٹی وی چینلز نے ہلکی سی جھلکی بھی دکھا دی تو اُن کونام نہاد حکومتی باندی پیمرا نے پابندیوں کے شکنجے میں جکڑلیا کیونکہ پیمرا کے نئے نویلے چیئرمین ابصار عالم نے ہنود و یہود کی وفاداری خو ب نبھائی ہے اور حکمرانوں کے تلوے چاٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اورچند ٹکوں کی خاطر روز ِ محشر رسول ِ رحمت ۖ کی شفاعت سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ہے۔۔

لیکن مغرب کی کچھار میں بیٹھے اِن پٹھوئوں کو معلوم ہے کہ ڈالروں اور پائونڈز کی جھنکار کی لذت اور سرور ہی کچھ ایسا ہے کہ بڑے بڑے سورمائوں ” ”عزت مآبوں ” ”عفت مآبوں ” ”جُبہ پوشوں ” ”دستار بندوں ” ”مُفتی اعظموں ” ”گدی نشینوں ” کے دل بہکتے اور مچلتے دیکھے گئے ہیں ، کھنکتے پائونڈز اور دمکتے ڈالرز کی چمک دمک ہی ایسی ہے کہ اس سے چنگے بھلے ”شیخ الاسلام ” کی آنکھیں بھی خیرہ ہو گئیںتھیںاور وہ لڑ کھڑا گئے تھے اوریہود و نصاریٰ کے پے رول اور بچے کھچے ٹکڑوں پر زندگی کی بسر اوقات کرنے والے مختلف چینلز پربراجمان ”اینکرز ” کے شکنجے میں پھنس گئے اور کہہ بیٹھے کہ ”ممتاز قادری قاتل ہے اس کو سزا ملنی چاہیے اورامام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا یہ بھی ”ارشاد ” طنزاََدُہرایا تھا کہ ”جنازے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا ”باالآخر ممتاز قادری شہید کے جنازے نے فیصلہ کر ہی ڈالا کہ شیطان لعین گورنر حق پر تھا یا پھر ایک معمولی دنیاوی رینک کا ملازم سچا کھرا عاشق رسول ۖ ممتاز قادری شہید جس نے اپنے سینے پر بہت بڑا تمغہ ء عشق رسول ۖسجایا ہوا تھاحق پر تھا ۔۔۔۔۔؟”جنابِ ”شیخ الاسلام ” کو زندگی بھر اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ نہیں آیااس لیے وہ سنگِ مر مر سے پھسل گئے وہ اور جنس اور نسل کے لوگ تھے جنہوں نے مغربی ماحول میں رہنے کے با وجود کہا تھا کہ ۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش ِ فر نگ
سُرمہ ہے میری آنکھ میں خاکِ مدینہ و نجف

Salman Taseer

Salman Taseer

گورنر تاثیر نے قانون انسدادِ توہین رسالت ۖ کے قانون کو نعوذ با للہ (کالا قانون )کہہ کر خود آگ لگائی اور خود ہی اس آگ میں جل کر مر گیا، ایک اسلامی معاشرہ اور مملکت میں توہینِ رسالت ۖ یقینا ایک ناقابل معافی جرم ہے حضور نبی کریم ۖ ایک سچے مسلمان کی زندگی اور آبرو ہیں تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی نے آبروئے مصطفی ۖ پر حملہ کیا’ توہین کی اس کا انجام یہی ہوا ہے رسالت مآب ۖ کی لُغت میں توہین رسالت ۖ کے کسی مرتکب کے لیے معافی کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اس لیے تو میں کہتا ہوں کہ عقیدہ، عشقِ رسالت مآب ۖ، ولایت اور آبرو وہ حساس معاملات ہیں جس کے حوالے سے کوئی بھی ذی شعور، حساس اور غیور شہری سیکولر اور لبرل نہیںہو سکتا کیا کوئی سیکولر اور لبرل اپنی بہن، بیوی اور بیٹی کی عصمت اور آبرو پر حملہ آور ہو نے والے درندوں اور غنڈوں کے معاملے میں رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کر سکتاہے؟رواداری اور برداشت کا درس دینے والا کوئی لبرل اور سیکولر شہری اپنے کسی قریب ترین اور جگری جانی قسم کے دوست کو بھی اس امر کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس کی موجودگی میں اس کی بیوی کی عصمت دری کرنے کی لبرٹی کو بروئے کار لائے؟اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر کسی ویب سائٹ، کسی صحافی، کسی ناشر اور ذہنی طور پر کھسکے ہوئے کسی آرٹسٹ ، دانشور،شیخ الاسلام ،مرد یا چینلز پر بیٹھی کسی بدتمیز عورت کوبھی اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ رسولِ رحمت حضور نبی کریم ۖ کی ذ ات ستودہ صفات کے حوالے سے دریدہ دہنی کرے یہ لبرل، ماڈریٹ، سیکولردانشور”راہنمایان قوم”بد لگام مقدس بچھڑے نہیں کہ جہاں چاہیں۔ منہ مارتے پھریں۔

مغربی و امریکی سفارت خانوں کے راتب پر پلنے والے چند صحافی، قلم کار بھی اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ گورنر تاثیر کے قتل کے بعد پاکستان دو طبقوں نہیں بلکہ دو نظریات میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ایک نظریے کے حامی سلمان تاثیر کے حق میں ہیں جبکہ دوسرا نظریہ ممتازحسین قادری شہیدکے حق میں ہے گو کہ غازی ممتازحسین قادری نے فردِ واحد کی حیثیت سے کا م کیا تھامگر اس کی انفرادیت میں 20کڑور غیور اور باحمیت قوم کی تائید شامل تھی اور ہے جس کا واضع ثبوت اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی سڑکیں ہیں جن پر انسانیت کے ٹھاٹھیں مارتے جلسے ‘ جلوس اور ریلیاں تھے اور راولپنڈی کی سر زمین پر ہونے والا ملک ممتازحسین قادری شہید کا کثیر الاجتماع جنازہ تھا جس میں پاکستان بھر کی تمام تنظیمات کے قائدین اور تمام مکاتب فکر کے اکابرین نے جنازے میں شرکت کر کے شہید ناموسِ رسالتۖ غازی ممتاز حسین قادری کی شہادت پر اجماع امت کی مہر ثبت کر دی جو قیامت تک کیلئے حقیقت بن گئی۔ ہمیں اس چیز سے غرض نہیں ہے کہ دنیا ہمارا موقف تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ ہماری غرض وغایت توفقط اتنی ہے کہ مدینہ کے تاجدار اور امت کے غم خوار رسولِ رحمت حضور نبی کریم ۖ ہم گنہگاروں سے راضی ہو جائیں۔ ہمیں دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ غلامانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ برابری کی بنیادپرتعلقات قائم رکھنے چاہیں اور پاکستان کو اپناتشخص عالمی سطح پرایک آزادانہ اور جمہوری حوالے سے منوانا چاہیے ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے”کے فارمولے پر عمل کرناہو گا تب ہم عالمی سطح پر ایک باوقار اور ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں اگر ایران کے کمزور مگر ارادوں کے مضبوط سابق صدر احمد ی نژاد کا عالمی طاقتیں کچھ نہیں بگاڑ سکیں تو ہم بھی اگرجرأت مندانہ طریقے سے جینا سیکھ لیں تو ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے مگر اس کے لیے ہمارے حکمرانوں کو اور نام نہاد غامدیت کے سانچے میں ڈھلے اورذہنی طور پر کھِسکے ہوئے ”سکالرز ”کوامریکہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اُتار کر غلامی رسولۖ کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالنا ہو گا جس سے دنیا بھی کامیاب اور آخرت بھی کامیاب ٹھہرے گی۔

راقم الحروف نہ تو کسی کا اُٹھائی گیر ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی ذاتی عداوت ہے جب بھی لکھا ہے تعصب کی عینک اُتار کر اور جانبداری کو ایک طرف رکھ کے لکھا ہے بے شک ”شیخ الاسلام ” کی بقول شخصے ”اُمت مسلمہ کے لیے بہت ساری خدمات ہوں گی مگر مصطفیٰ کریم ۖ کی ناموس سے بڑھ کر ہمیں کسی کی بھی عزت عزیز نہیں ہے ” ہمارے خیال میں ”بونے دانشوروں ” کے تڑپ اُٹھنے اور ملک ممتاز حسین قادری کو قاتل ڈیکلیئر قرار دینے کے کئی نفسیاتی اور سیاسی پہلو بھی ہیںجس کا ہم جامع الفاظ میں احاطہ کرنا چاہیں گے تاکہ چہروں پر سجے روشن خیالی اور جدیدیت کے ”ماسک ” اُتارے جا سکیں جن کے آداب و اطوار بندگی جُدا ، عقیدت و محبت کے تشکیلی عناصر مختلف ، بنیادی انسانی حقوق کا تصور اور معیار الگ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تصور دین با لکل منفرد ۔۔۔۔۔اب ایسے میں مرحومہ بے نظیر صاحبہ کی طرح ”بونے دانشور اور ” لاکھ اُردو بولیں ، قرآن و حدیث کے ریفرنسز کورٹ کریں ،مختلف کتابوں کے حوالے دیں ، دلائل سے قائل کرنے کی کوششیں کریں مگر پھر بھی سوچتے تو انگریزی میں ہیں۔

Ideas

Ideas

ناں۔۔۔۔۔۔انگریزی خیالات کا بھلا ”دیسی جذبات ” سے کیا جوڑ اور واسطہ ہے ؟ گھاس پھوس کی جھونپڑیاں ، سنگ ِ مر مر سے آراستہ و پیراستہ ، لشکارے مارتے محلات کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی ناں؟ ۔۔۔۔۔۔۔یہ تو کچے کوٹھے میں رہنے والے پُختہ عقیدے کے حامل ہمیں قلم کاروں کو بھی سوچنا چاہیے تھا ہم بھی خوا مخواہ قلم ہاتھ میں پکڑا اور اسی کولٹھ بنا کر کسی ”شریف النفس ” انسان کے پیچھے لگ پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔ انگریزی میں سوچنے والا ایسا ہی کرے گا ناں ۔۔۔۔۔ کیا ”وہ ” ممتاز حسین قادری کو ہیرو قرار دے سکتا ہے سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔۔۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جس جس نے بھی انگریز کی چاکری کی ہے ، اُن کے جوتوں کو پالش اور گھوڑوں کو مالش کی ہے ، اُن کی لِدیںاور ناز نخرے اُٹھائے ہیں آج اُ نہی کے وارے نیارے ہیں اور وہی مغرب کو پیارے ہیں کیونکہ وہ اُن کے راج دُلارے ہیں۔

دوسرے یہ کہ آج کل نام نہاد ”روشن خیال ” حکمرانوں اور ”سکالرز ” کو جو ”غامدیت ” اور ”بنیاد پرست ” کا آسیب چمٹا ہواہے اور جس سے جان چھڑانے کی کوششیں ہو رہی ہیں یہ ردعمل بھی اسی آسیب زدگی کا شاخسانہ ہے کہ ہائیں ۔۔۔۔توہین رسالت ۖ جیسا معمولی جُرم اور سزائے موت جیسی سخت سزا ، یہ نری بنیاد پرستی ہے اور ہم ٹھہرے بنیاد پرستی کے کٹر دشمن! تیسرے یہ کہ جب ہم ذہنی اور فکری طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمارا مدار تمدن اور معیار تہذیب ِیورپ ہے تو خوب و زشت کے پیمانے ہمارے پاس نہیں یورپ کے پاس ہیں جن پر ہم ہر چیز کو پرکھتے ہیں تو لامحالہ جو رحجان ، جو اپروچ ، جو نظریہ اور جو بات یورپ کو نا پسند ہے ہم اسے کیونکر پسند یدہ قرار دے سکتے ہیں ؟چونکہ اس قانون کو شروع دن سے امریکہ اور بر طانیہ نے نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اس لیے ”شیخ الاسلام ” کی مجبوری ہے کہ وہ بھی اسے لازمی طور پر کراہت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کراہت کا کھلے عام اظہار بھی کریں تاکہ یورپ کا ”شیخ الاسلام ” کے بنیاد پرست ہونے کا معمولی سا شُبہ اور شائبہ بھی دور ہو جائے کیونکہ مغرب ہی سے تو جنابِ شیخ کی روزی روٹی اور نوکری وابستہ ہے، اگر مخالفت بھی کرتے ہیں تو جو روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ڈالرز و پائونڈز اپنے اکائونٹس میں منتقل ہو رہے ہیں۔

اُن کی بندش کا خطرہ ہے لہذا جنابِ ”شیخ ” کا قدم یوں بھی ہے اور ”یوں ” بھی ! اُ س وقت بھی بی بی مرحومہ نے اپنے بیان میں حیرت کا اظہار کیا تھا کہ چودہ سالہ بچے کو سزاسناتے ہوئے اقوام متحدہ کے اُس چارٹر کا خیال نہیں رکھا گیا جس پر پاکستان دستخط کر چکا ہے ، سوال یہ ہے یو این او کے چارٹر کا ہمیں تو بہت خیال اور لحاظ ہے لیکن یو این او کو اپنا چارٹر کیوں بھول جاتا ہے کہ جب ، عراق ، افغانستان ، کشمیر اور بوسینیا میں چودہ سال کے نہیں جھولا جھُولتے اور دودھ پیتے بچے آتش و آہن کے جہنم میں دھکیل دیئے جاتے ہیں وہاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی بے حرمتی اور خلاف ورزیوں کا کسی کو خیال نہیں آتا ؟اور سوال بھی بہر حال اہم ہے کہ یواین او کو عام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تو ہمیشہ خیال رہا انسانی جمیعت کے مقدس ترین نفوس اور بر گزیدہ شخصیات انبیاء کرام کی حرمت اور نا موس کا کیوں خیال نہیں آتا ؟ ملعون سلمان رشدی کے حقوق تو یورپ کو ملحوظ خاطر ہیں نا موس پیغمبر ۖکا پاس و لحاظ کیوں نہیں ؟ مغرب والے ”سلمان رُشدی ” کے چاچے مامے اور تائے بنے ہو ئے ہیں اور مشرقی چُغہ و چولا پہنے مغربی نظریات کے پہریداربھی ”سلمان تاثیر ” کے وکیل صفائی بننے کی کوششیں کر رہے تھے اب سارا زور ”شیطانی نظریات ” کو بچانے کی تگ و دومیں صرف ہو رہا ہے اِدھر عاشقان ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ”آسمانی نظریات ” کو بچانے کی سعی کر رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کس کی دہلیز کا بوسہ لیتی ہے تاریخ کے گُم شدہ اوراق کو کھنگالا جائے تو صاف لکھا نظر آتا ہے کہ جیت ہمیشہ آسمانی نظریات والوں ہی کا مقدر ٹھہری ہے ملک ممتازحسین قادری شہید نے شہادت سے چند گھنٹے پہلے اپنے والد محترم سے ملاقات میں سب سے پہلا جملہ ہی یہ استعمال فرمایا کہ ”آپ ہار گئے ہیں میں جیت گیا ہوں ”دراصل جنابِ ”شیخ الاسلام ” نے اتنی عجلت میں رد عمل اس لیے ظاہر کیا تھا کہ موصوف اس وقت مغرب کی چھتر چھائوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مغربی پناہ میں رہتے ہوئے ان کے چہرے پر ”بنیاد پرستی ” کا داغ ہو۔

ہم قرآن و حدیث کی بات نہیں کرتے اور نہ اس سے استدلال کرتے ہیں کیوں کہ یہ ”حرکت ” پھر بنیاد پرستی کی ذیل میں آجائے گی اگر چہ قرآن مجید میں واضع ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی اسلام اور اہل اسلام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے پھر بھی ہم قرآن کی نہیں امریکہ اور مغرب کی
دوستی کا دم بھرتے ہیں اور امریکہ اور مغرب ہے کہ کبھی کسی سے خوش نہیں ہوتا تا آنکہ کوئی زینہ بہ زینہ نیچے اُترتے ہوئے غلامی کی دہلیز پر کھڑا نہ ہو جائے اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ غلام کے ساتھ معاملہ دوستی کا نہیں بلکہ اس سے مطالبہ بندگی کا ہوتا ہے تو آخر ہمارے ”شیخ الاسلام ” خود کو اور پوری پاکستانی قوم کو بندگی کے مقام پر کیوں کھڑا کرنا چاہتے ہیں ؟اس نفسیاتی خوف کا کوئی علاج نہیں کہ دنیا کیا کہے گی ؟ مغرب کیا سمجھے گا ؟موجودہ حکمران استعمار کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ، ہماری معیشت کا ستیا ناس ہوا پڑا ہے ،دفاعی پوزیشن کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے ، سیاست بازی کا میدان خوب گرم ہے لے دے کے ایک محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ ہے یورپ سمجھتا ہے کہ اگر وہ بھی ان کے دلوں سے نکال لیا جائے تو مسلمان ہمیشہ کے لیے غلام بن جائیں گے مسلمان ہر معاملہ میں نقصان برداشت کر لیتا ہے ، لیکن ناموس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے مال ، اپنے وطن ، اپنی اولاد اور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے اور متاع عزیز فراموش کرنے والی چیز نہیں ہوتی اور یہی وہ متاع عزیز ہے جس کے سہارے مسلمان زندہ ہیں ورنہ زندگی کا جواز کیا رہ جاتا ہے ؟۔

اک عشق ِ مصطفیٰ ۖ ہے اگر ہو سکے نصیب
ورنہ دھرا ہی کیا ہے جہانِ خراب میں

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی