تحریر: کہکشاں صابر ”قرارداد پاکستان کا مقصد اور اسباب” ”اس قوم میں ہےشوخی اندیشہ خطرناک ”جس قوم کے افراد ہوں ہر بندے سے آزاد 23 مارچ 1940 پاکستان کی تاریخ کا سنہری دن جب مسلمانان ہند کو اپنے سیاہ اور سفید قرطاس کو دھنک رنگ رنگنے کی امید ملی۔لوگوں نے ہر طرفآزادی کے سربکھیرئیں۔بزرگوں نے شکر خدا میں زمین کو بوسہ دیا ۔پاکستان کا قیام کسی اچانک حادثہ کی پیداوار نہیں بلکہ یہ حاصل ہے اس طویل جدوجہد کا جو مسلمانان ہند نے اپنے دین ، تہذیب تمدن ، جداگانہ حیثیت کی بقا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے کی ۔ مسلمانوں کی ہمیشہ یہ دلی خواہش رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر مبنی خلافت راشدہ کے طرزپر ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جہاں صرف اور صرف اسلامی اصولوں کی راہنمائی ہو۔ مسلمانوں سے جتنی قومیں بھی برصغیر میں آئی۔
وہ ہندو معاشرے میں جذب ہو گئیں ۔یہ امتیاز صرف اورصرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ صدیاں ہند ووٗں کے ساتھ گزاری لیکن اس کے باوجودخود کو ہندوتہذیب میں کبھی مدغم نہیں ہونے دیااپنی علیحدہ تشخیص برقرار رکھی ہندو مسلمان اکٹھے ہو کر بھی کبھی اکٹھے نہیں تھے ان کے درمیان مذہبی ، تہذیبی اور سیاسی اختلافات انگریزوں کی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلیں گئے۔ کانگرس کے دوسالہ اقتدار میں۔۔۔مسلمانوں کے بارے میں ان کے قول وفعل میں تضاد کھل کے سامنے آگیا ان کا اصل روپ بے نقاب ہوا۔ کانگرس نے مخلوط وزاتیں بنانے سے انکار کردیا ۔مسلم لیگ کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔انتظامیہ کے ہر کام میں مداخلت پیدا کی گئی۔ کانگرس کاترنگا سرکاری عمارت پر لہرایا گیا۔ گاندھی کی مورتی ہر سکول میں نصب کرکے اس کی پوجا کی جانے لگی اور مسلمانوں کے بچوں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
”ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
”جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
”یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
”غارت گر کانشانہ دین نبوی ہے
”بازو تیرا توحید کی قوت سے قومی ہے
”اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
”نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
”اے مصطفویؐ خاک میں اس بت کو ملا دے
Hindus and Muslims
اردو زبان نے ہندوستان میں جنم لیا اور ہندووں اور مسلمانوں کامشترکہ تہذیبی ورثہ تھی لیکن ہندووٗں کی تنگ نظری کی وجہ سے اسے مسلمانوں کی زباں قرار دیا گیا گاندھی نے کہا۔۔۔ اردو زبان کو مسلمان بادشاہوں نے اپنے دربار میں پروان چڑھایا یہ زبان قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے لہذا ہندو اس زبان کو کسی صورت بھی قبول کرنے کو تیار نہیں،، رفتہ رفتہ دونوں قوموں میں مخالفت بڑھتی گئی اور پر امن بقائے باہمی کے تمام امکانات ختم ہو گئے اس صورت حال کو بعض اعتدال پسند ہندووٗں نے بھی محسوس کیا علامہ اقبال کو بجاطور پر پاکستان کا خالق کہا جاتا ہے۔ٓپ بھی متحدہ قومیت کے سخت خلاف تھے۔آپ نے مسلم لیگ کے سلانہ اضلاس میں متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کورد کرتے ہوئے فرمایا.. ہندستان کے مختلف مذاہب اور مختلف ذاتوں میں اس قسم کارجحان موجود نہیں کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت کو فراموش کرکے ایک وسیع اکائی کی صورت اختیار کرلیں۔ ہم ہندو مسلمان ایک دوسرے کی نیت پر شک کرتے ہیں اور در پردہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہم اپنی خودغرضی کوقوم پرستی کے لبادہ میں چھپاتے ہیں۔
رام راج کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد مسلمان اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا ہندووٗں کے ساتھ مل کر ایک ملک میں رہنا ممکن نہیں قرارداد پاکستان پیش کرنے سے ایک دن قبل 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک (اقبال پارک) لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے دوقومی نظریہ کی وضاحت کی اور مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کے حق میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ؛؛ برصغیر کے مسلہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اگر بر طانوی حکومت ہندوستان میں حقیقی امن قائم کرنے کی خواہش مند ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے بڑی اقوام کیلئے جداگانہ وطن بنا دیئے جائیں اسلام اور ہندؤمت دو الگ مذاہیب ہی نہیں بلکہ دو جداگانہ نظام حیات ہیں یہ محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم بن سکیں گے مسلمانوں اور ہندوؤں کا تعلق دو مختلیف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رواجوں اور ادبیات سے ہے نہ ان کے درمیان باہم شادیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں ان کے تاریخ وتہذیب ایک دوسرے سے متضادم ہے ایک قوم کا ہیرودوسری قوم کا دشمن ہے اور ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے ایسی دوقوموں کو ایک نظام میں باندھنے کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلےگا لفظ ”قوم” کی ہر تعریف کی روسے مسلمان ایک قوم ہیں
Gandhi
لہذاان کے لیے ایک الگ وطن چاہیےجہاں وہ اپنے عقائد کے مطابق معاشی، معاشرتی اور سیاسیی زندگی گزار سکیں قرارداد لاہور کے خلاف ہندولیڈروں اور اخبارات کاردعمل بڑاشدید تھا ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ”ایک فرقہ کو مطمن کرنے کیلئے برصغیر کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا عوام کی ترقی اور سکون کو برباد کرنے کے مترادف ہے” ”گاندھی نے دو قومی نظریہ کو ایک جھوٹ قرار دیا اور تقسیم کو خودکشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”وہ اس چیرپھاڑ میں شریک نہیں بنے گا ” راج گوپال اچاریہ نے تقسیم ہند کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”جناح کا یہ مطالبہ اس طرح ہے جیسےدو بھائیوں میں ایک گائے کی ملکیت پر جھگڑا ہوا اور وہ اپنی گائے کو دو ٹکڑوں میں بانٹ لیں” اس قرار داد میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا نام پاکستان تجویز نہیں کیا گیا تھا صرف بیگم محمد علی جوہر نےقرارداد کی تائید کی تقریر کرتے ہوئے ”پاکستان کا لفظ” استعمال کیا لیکن ہندوؤں نے طنزااسےپاکستان قراردیا ہندوؤں کی اس مخالفانہ روش نے اس نام کو ایسی مقبولیت بخشی کہ مسلم لیگ کے کسی باقاعدہ فیصلے کے بغیر ہی آزاد مسلم ریاست کا نام ”پاکستان” قراردیا اور قرارداد لاہور قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور و مقبول ہو گئی قرارداد لاہور نے بر صغیر کے مسلمانوں کی منزل کا تعین کر دیا اور پاکستان کا حصول ان کا نصب العین بن گیا
”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
چھوٹے بڑے ہر ایک کی زبان سے صرف ایک ہی نعرہ بلند تھا جس کی پرواز آسمانوں تک تھی
”نہ توزمیں کےلیے ہےنہ آسماں کے لیے ”جہاں ہے تیرے لیے تو نہیںجہاں کے لیے
پاکستان کے نام میں اتنی کشش تھی کہ جلد ہی یہ سارے ہندوستان کےمسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا پاکستان کا مطالبے نے بر صغیر کےمسلمانوں میں اتحاد اور یک جہتی پیدا کر دی ۔ آزاد اور خودمختارملک کے حصول کی کوششوں ان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی جوش وخروش سے حصہ لیا جن کو پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا قائداعظم نے علی گڑھ کے طالباء سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا تھا؛ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب اس سرزمین پر ابھی مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل ہندوستان کاپہلا فردجب مسلمان ہواتو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہابلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد بن گیا اور ہندستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی قرارداد پاکستان کے بعد قائداعظم کی مقبولیت میں اور مطالبہ پاکستان نے زور پکڑا آپ کی بے مثال قیادت اور مسلمانوں کی ہر طرح کی قربانی کی وجہ سے بالاآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آگیا جہاں پر اسلامی اصولوں کی رہنمائی ہونی تھی جہاں ہر سانس آزاد تھی جہاں روح شانت تھی پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا نظریہ حیات پہلے وجود میں آیا اور خوبصورت سلطنت بعد میں قائم ہوئی
”کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا ”نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں