تحریر: شاہ بانو میر 23 مارچ بھی ہر سال اسی طرح طے شدہ دن پر آتا ہے جسے دوسرے مقررہ مدت پر طے شدہ دن آتے ہیں کبھی مذہبی کبھی قومی اور جو جو جس انداز میں محبت رکھتا ہے اسی انداز میں ان کو مناتا دکھائی دیتا ہے . ہم نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا اور صرف علمائے اکرام ہوں تو دینی تہواروں پے ان کے عقب میں کھڑے ہو کر ان کو اور ان کی سوچ کو مضبوط کرتے ہیں قومی تہوار ہو تو سیاسی جماعتوں میں منقسم سیاستدانوں کے جلسوں میں جا کر اپنی حب الوطنی پے مہر لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں وقت ملے تو سوچئے یہ سب بھرپور مظاہرہ ہے دین کا بھی دنیا کا بھی اس کے باوجود ہم سب ہر میدان میں ناکام کیوں؟ ناکامی اس لئے کہ ایسے تمام مظاہرے محض تصویری نمأئش سے آگے مقصد حاصل نہیں کرتے ۔
جبکہ قومی مسأئل کا انبار سامنے ہے جس پر انفرادی محنت کی ضرورت ہے مگر کون کرے؟ انسان کو اللہ رب العزت نے پیدا ہی عزم مصمم اور جدو جہد مسلسل کیلٔے کیا تھا دنیا کی کامیابی اک یہی طے شدہ فطرتی اصول ہے جس جس قوم نے یہ اصول اپنا لیا وہ اپنے زیرو کو ہیرو بنا گٔئی اور ہم جیسے دوسروں پے قناعت کرنے والے دوسروں کی انگلی تھام کر ذاتی تشہیر تو حاصل کر گئے لیکن اپنے خاندان قوم کیلئے کچھ بھی آگے نہیں بڑھا کر گئے بڑہایا تو صرف ہر کوشش کرنے والے نے بینک بیلنس جائز و ناجائز ہر انداز میں ہر قدرت کی عطا کو اپنی محنت کا پھل سمجھا اپنی ذات کے دائرے میں قید ہم لوگ بھول گئے کہ ہماری تخلیق کا مقصد امت وسط کیلئے تھا دوسروں کو بھلائی پہنچانے کیلئے تھا اور ہم اپنی ذات کو ہی اتنا پھیلاتے چلے گئے کہ دوسروں کیلئے کہیں گنجائش نکال ہی نہیں سکتے سوائے اودھم مچانے کے اور شور شرابے سے سچائی کو پس پشت ڈال کر وقت گزاری کے ایسی قومیں کبھی اپنے محسنوں کیلئے نہیں کچھ کر سکتیں کیونکہ شعور صرف ذاتی کامیابی کا ہے۔
ALLAH
اس لئے کہ زندگی کا ڈیزائین اللہ پاک نے بغیر سوجھ بوجھ کے دوسروں کی پیروی پر نہیں تخلیق کیا تھا 23 مارچ 2016 عنقریب آیا چاہتا ہے وہی لوگ ہوں گے وہی چہرے ہوں گے وہی انداز وہی سب کچھ کچھ نیا پن دکھائی نہیں دے گا ۔ ٌ یہی علامت ہے سُن ہوئی قوم کی مگر اب اس قوم کومتحرک ہونا ہے ۔ شعور کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر اندھا دھند پیروی نہیں کرنی اسے خود سمجھنا ہے جاگنا ہے دنیا کے بدلتے ہوئے حالات متقاضی ہیں کہ غیور اقوام کی طرح اپنے تاریخی اثاثے کو تاریخی شخصیات کو بھی نمایاں کریں اور بتائیں کہ ہم ایسے رہنما بھی رکھتے تھے جو دنیا کے نقشے کو تبدیل ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اس لئے کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے پاکستان کا نام اس میں شامل ہونا تھا
ہم نے ہمیشہ اہم بات کو عام سمجھ کر اسے وہ اہمیت نہیں دی جس کا وہ اصل حق رکھتی ہے حد تو یہی ہے کہ اپنے اصل اپنے قرآن پاک کو اپنے خالق اللہ کو جب اسکا اصل حق نہیں دے سکے تو کسی اور چیز کا یا کسی تاریخی شخصیت کو نظر انداز کرنے کا گلہ کیا کرنا ؟ مگر شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی باشعور غورو فکر کرنے والی خواتین دیار غیر میں رہ کر پاکستان اور اسکے وقار کے حوالے سے فکرمند رہتی ہیں ان کا ارادہ ہے کہ ر سال قومی تہوار نئی جدت اور نئی احساس ذمہ داری کے ساتھ منائیں تاکہ اکیڈمی کی افادیت پاکستان کیلئے کچھ بہتر کر سکے۔ اکیڈمی کی توجہ کسی طالبہ نے کروائی کہ آپ قائد اعظم کو کس عظیم صورت میں اور کس شاندار انداز میں پیش کرتی ہیں جبکہ ہمیں تو صرف گاندھی کا پتہ ہے کہ وہ ہندوستان کا عظیم سیاسی رہنما ہے ۔ہم تو اسی کو بحیثیت بہترین انسان پڑھ رہے ہیں ۔
23 March
یہ تعلیمی رویہ اکیڈمی کی تمام خواتین کو متفکر کر گیا تمام ممبران سے مشاورت کی گئی اور یہ طے پایا کہ انشاء اللہ اس اہم ترین موضوع کو 23 مارچ کیلیے ہم اکیڈمی کی جانب سے ایک قرارداد منظور کریں گے اور پھر پوری تندہی کے ساتھ اس موضوع کی حساسیت کے ساتھ اس پر کام کیا جائے گا ۔ جب اس ضمن میں یہاں تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل سے رابطہ قائم کیا جائے گا ان سے رابطہ اس لئے ضروری ہے کہ وہ حیران ہیں اس تعلیمی تقسیم پر موجودہ پڑہائے جانے والے نصاب کے حوالے سے نوجوان نسل کی طرف سے کئی تحفظات سننے کو ملے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے نصاب میں گاندھی کا کردار کسی عظیم الشان تاریخی شخصیت کے طور پے برصغیر پاک و ہند کی سیاست رہنما کی حیثیت سے پڑہایا جا رہا ہے اور قائد اعظم کا کہیں کردار ہی نہیں ہے یہ اچنبھے والی بات ہے اس پے مزید مکمل اکیڈمی کی ٹیم غورو خوض کے ساتھ ساتھ یہاں مقیم پاکستانی نژاد طالبعلموں سے بھی معلومات حاصل کر رہی ہے ۔
ٌ انشاء اللہ مکمل تفصیلات اکٹھی ہوتے ہی ہم اس پر جامع انداز میں اپنے قلم کی سچائی کو بھی منظر عام پر لائیں گے اور ایک وفد کی صورت میں انشاء اللہ شعبہ تعلیم سے وابستہ کسی اہم عہدہ دار سے وقت لے کر ان کو قائد کی زندگی ان کی جدوجہد اور ان کے عظیم مقام کے بارے میں ٹھوس تحقیقاتی اور تاریخی مستند شدہ حقأئق سامنے رکھیں گے اہل وطن سے التماس ہے کہ اس کام میں اگر آپ کے پاس کوئی قائد اعظم سے متعلق معلومات ہوں تو ازراہ کرم ہمیں ضرور دیں یہ آپکا قومی فریضہ ہے 2016 دنیا بھر میں اہم ترین سال کے حوالے سے جانا جا رہا ہے وہ لوگ جو پاکستانی ہو کر بھی اس اہم ترین نقطہ سے چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں وہ جان لیں کہ قائد کے بارے میں اگر کوئی پاکستانی طالبہ یا طالبعلم درست انداز میں نہیں جان سکے گا تو وہ کیسے یہاں رہ کر پاکستان کیلئے کچھ اچھا کرنے کا تصور رکھ سکے گا ؟ اسکا آئیڈیل تو گاندھی ہوگا جس کو بھرپور انداز میں بہترین خوبیوں کے ساتھ کتب میں محفوظ کر دیا گیا ہے ہماری اکیڈمی 23 مارچ کو انشاء اللہ اس قرارداد کے ساتھ منائے گی کہ قائد کو ان کا اصل مقام یورپ کی کتب میں دلوانا ہے پاکستان زندہ باد