تحریر : عفت دو سموسے دینا ،چٹنی زرا ذیادہ ہو ۔ایک بڑی گول گپے کی پلیٹ ،چار شوارمے ،چکن برگر،آلو کی کٹلس۔دو کپ چائے ملائی مار کے ۔یہ سب وہ آوازیں ہیں جو ہم صبح شام سنتے ہیں ۔اور سڑک کے کنارے لگی خوردونوش کی ان دکانوں سے لذت و کام و دہن کا کام لیتے ہیں ۔ان اشیاء کی خوشبو ہمیں بے اختیار اپنی طرف کھینچتی ہے ۔گول گپے کا نام لینے سے ہی منہ میں پانی بھر آتا ۔کیا کبھی ہم نے ان اشیاء کی تیاری کے مرحلے دیکھے ہیں ؟یا پھر ہم عادی ہیں کبوتر کی طرح بلی دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے کے ۔آج میرے کالم کا موضوع بھی یہی ہے ۔کہنے کو تو بڑا ظالمانہ موضوع ہے کیونکہ اپنی پسندیدہ چیزوں کے متعلق کچھ بھی ناگوار سننے اور سہنے کے لیے وڈا سارا دل گردہ درکار ہے ۔
اور وہ پاکستانی قوم کے پاس بدرجہ اتہا موجود ہے کیونکہ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی ہیں بلکہ پرانے پاپی ہیں ۔ہر بار الیکشن میں ہم پھر سے پرانی آزمائی ہوئی چیزوں کو ووٹ دے کر سامنے لے آتے اس امید پہ کہ ان کا قبلہ و کعبہ بدل چکا ہو گا جب کہ وہ تو چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی کی تصویر رہتے ہیں ۔ہر حکومت دوسری کو وراثت میں ملک کا خزانہ خالی اور اپنا بھرا دے کے جاتی۔سو جب بھی کوئی کرسی پہ آتاسموسے کے ساتھ چٹنی ضرور طلب کرتا ،کیونکہ کسی بھوکے سے کسی نے سوال کیا دو جمع دو کتنے ؟ جواب ملا چار روٹیاں وہ کرسی پہ بیٹھنے والا ایک چھینک آنے پہ امریکہ یا لندن کا رخ کرتا آہو جی کرسی وڈی بیماری اے۔اکیلے آنے جانے میں بھی ڈر لگنے لگ جاتا سو پروٹول کے بغیر ہائو از پاسبل۔اس کے علاوہ کالا دھن سفید کرنے اور گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے سال میں ایک عمرہ تو فرض ہے نا پھر واپسی پہ دبئی سے شاپنگ نہ ہو تو وزیر کہاں کے ٹہرے۔
اب ایک جھلک ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کی خاص طور پہ ایسے اسکولز جو ایسے دیہاتوں میں ہیں جو زمین دار نما خدائی خواروں کی حد بندی میں ہیں جو آج بھی سمجھتے کہ تعلیم ان کی حکمرانی کو زوال کی طرف لے جائے گی ۔وہاں رات میں گدھے گھوڑے باندھے جاتے اور دن میں قوم کے معماروں کو آدمی بنانے کی جستجو کی جاتی ہے اب واللہ عالم اس میں کتنی کامیابی ملتی ہے ۔اصل رولا یہ ہے کہ ہمیں کچھ چیزیں ہضم نہیں ہوتیں اور ہمارے ہاضمے خالص چیزوں کو ہضم کرنے کے معاملے میں بلکل بودے واقع ہوئے ہیں لہذا بلاملاوٹ ہاضمہ مشکل ہے البتہ نا خالصی کے معاملے میں ہم لکڑ ہضم پتھر ہضم کے ساتھ ساتھ ٹیکس ہضم، حقوق ہضم،رشوت ہضم،عوام کا پیسہ ہضم،کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں اور یہ سب بغیر معجون کے ڈکار جاتے ہیں ۔
Pervez Musharraf
چسکے لینے میں ہماری قوم اپنی مثال آپ ہے ۔پرویز مشرف صاحب علاج کے غرض دبئی روانہ ہوئے اب میڈیا ساری رات ان کے دروازے پہ پہرہ دیتی رہی کہ صاحب کب نکلیں اور کب وہ دیکھیں آیا ان کی بیماری حقیقی ہے یا ڈرامہ اب ہوا یہ کہ سابق جنرل صاحب بھی بڑے تیز نکلے عقبی دروازے سے ائیر پورٹ پہنچ گئے اور میڈیا بھوسے میں سوئی تلاش کرتا رہ گیا ۔اب تبصرے کے سموسے کی چٹنی کا حال دیکھیں کہ ناپا جا رہا ہے کہ اس میں دہی کتنی ہے ہری مرچیں کتنی اور پانی کتنا ؟ یعنی کیا وہ اپنے قدموں پہ چل کے گئے؟ آیا ان کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی؟ان کے چہرے پہ تکلیف کے آثار تھے ؟ جہاز کی سیڑھیاں کیسے چڑھے ؟ اب اس ایک ایک پوائنٹ پہ تبصرہ سارا دن اس پہ لگا دیا جائے اس لیے کہ ویلی قوم ہے سو کسی کام پہ ہی لگ جائے ۔اب مشرف صاحب کو اس صورتحال میں مزہ تو آنا تھا آخر چوہے بلی کا کھیل تھا سو انہوں نے سفر میوزک انجوائے کرتے اور مسکراتے مست گذارا اب اس پہ بھی اعتراض کہ اگر وہ علیل ہیں تو مسکراہٹ کیوں کرب کیوں نہیں ۔
گذشتہ دنوں ٹی وی پہ ایک پروگرام نظر سے گذرا اس میں دو لفظ استعمال ہوئے گرم مرغی اور ٹھنڈی مرغی ۔کمپئیر نے وضاحت طلب کی تو جواب ملا جب مرغیاں ایک شہر سے دوسرے میں سپلائی کی جاتی ہے تو جو مرغیاں راستے کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے اللہ کو پیاری ہو جاتیں وہ ٹھنڈی مرغی کہلاتی اس کا ریٹ بہت کم ہو جاتا لہذا وہ ہمیں چکن برگر،شوارمے، چکن سموسے،اور چکن کے جو ،جو لوازمات ہم شوق سے کھاتے اس میں ڈال کر کھلا دی جاتی اور ہم چٹخارے لے کے لذت و کام و دہن میں اضافہ کرتے ۔حرام کا چسکہ ایسا لگا کہ پہچان ہی نہ ہوئی کہ گائے کھائی یا قصائی بادشاہ نے گدھا کھلا دیا ۔اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح ہم حلال حرام کا فرق فراموش کر گئے اور اس پہ ہم اپنے دکھوں کا پنڈورا کھول کے بیٹھ جاتے افسوس کہ ہمارے اپنے اعمال ہی ایسے ہیں ۔جب اپنے ہی دامن میں چھید ہوں تو دینے والے کے ہاتھ کا کیا قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔