تحریر: سمیعہ رشید اللہ تعالیٰ نے جب پہلی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تو اس وحی کا پہلا لفظ تھا “اقرائ”جس کے معنی ہیں “پڑھ “.اس بات سے اندازہ لگانا بے حد آسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کو کس قدر اہمیت سے نوازا ہے. ہر دور میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا. ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معلم اخلاق ہیں. ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام نے علم حاصل کیا اور پھر طبع طابعین اور صالح بزرگوں نے اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے اس سنت رسول اور اللہ کے فرمان کو آگے بڑھایا. مگر افسوس کہ آج اکیسویں صدی میں جہاں ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے وہاں ہماری تعلیم کا میعار بہت گر گیا ہے.
ہم نے تعلیمی ادارے تو بہت قائم کر دیے ہیں۔ بڑی بڑی عمارات دیکھنے میں دلکش اور حسین معلوم ہوتی ہیں مگر اگر ان کے اندر ایڈمنسٹریشن کو دیکھا جائے اور یہاں کے تعلیمی معیار کو تو سر شرم سے جھک جاتا ہے.ہمیں صرف ڈیٹا مل سکتا ہے ان اداروں سے علم نہیں.. اب نہ ذہنوں کی تعمیر کرنے والی کتابیں رہیں نہ ہی استاد. استاد یا تو انسان کو بنا دیتا ہے یا بیگاڑ دیتا ہے.
آج کے دور میں استاد اپنے شاگردوں کے دماغ میں بس ایک چیز ڈالتا ہے کہ تم نے کس طرح اپنا جی پی اے اچھا کرنا ہے. جی پی اے اچھا کرنے کے چکر میں شاگرد نہ سمجھتے ہیں۔ کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اور ان کے پڑھنے کا مقصد کیا ہے بس رٹا لگا کر پیپر دیا ٹیسٹ دیا اور جی پی اے اچھا کر لیا. اور خوش ہو کر سب کو بتا دیا ٹوپ کیا ہے اور جب انٹرویو دینے جاتے ہیں۔ اور سوال کیا جاتا ہے تو آگے سے جو رٹا لگا کر ٹوپ کیا ہوتا ہے وہ سب بھول چکے ہوتے ہیں۔ نہ انٹرویو میں پاس ہو پاتے ہیں۔ نہ اچھی نوکری ملتی ہے جس کے لئے بڑے بڑے خواب دیکھے ہوتے ہیں۔ یہاں اب حال یہ ہے کہ اگر کوئی شاگرد کسی علم کو سیکھنا چاہتا ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہے تو استاد اس کو موقع نہیں دیتے اور اگر موقع دے بھی دیں تو اس کو ایسا جواب نہیں مل پاتا جو اس کو تسلی دے سکے.
Education
آج کے دور میں سب چاہتے ہیں۔ کہ وہ ترقی کریں مگر ترقی اور پیسہ کمانے کے چکر میں علم کو بہت پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے.ڈگری پہ فرسٹ ڈویژن سے اگر نوکری مل رہی ہوتی تو ایم اے ؛ایم فل اور پی ایچ ڈی کیے ہوئے لوگ یوں نوکری کے لئے دھکے نہ کھا رہے ہوتے. ہمارے ملک میں اس قدر علمی شخصیات گزری ہیں اور موجود ہیں جن کو ہم مثالیں بنا کر ترقی کر سکتے ہیں ـ اشفاق احمد مرحوم اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیں بتاتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کی جستجو پیدا کرو پھر دیکھو اللہ اس دنیا کو تمھارے قدموں میں لا کر رکھ دے گا.
ہماری تعلیم کا معیار تو بتا دیا میں نے اب سیر پہ سوا سیر سنیے کہ فیسیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک غریب اپنے بچے کو سکول میں داخل کروانے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے وہ کالج اور یونیورسٹی میں کیا داخلہ کروائے گا. دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ علم کی انسان کی زندگی میں کیا اہمیت ہے.
علم کی اہمیت تو اسلام نے بتائی ہے مگر افسوس ہم ایک مسلمان ملک ہونے کے باوجود اس قدر پستی کا شکار ہے کہ اپنا مذہب پیسے کو بنا لیا ہے فیسوں کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ کوئی غریب جس کو علم حاصل کرنے کا جنون ہو جو زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جزبہ رکھتا ہو مگر وہ صرف فیس نہ ہونے کی وجہ سے محروم رہ جائے لاہور یونیورسٹی آف پنجابسے بی اے کا امتحان پاس کرنے والا نوجوان جس کے والد مزدوری کرتے تھے اور وہ خود ہوٹل پر روٹیاں اور نان لگاتا تھا پورے پنجاب میں دوسرے پوزیشن لے کر یہ ثامت کردیا کہ انسان کے اندر کچھ کر گزرنے کا جزبہ ہوتو اس کو کوئی پیسوں کی وجہ سے روک نہیں سکتا. یہ تووہ مثال تھی جو اپنی مدد آپ کے تحت محنت کر کے کامیابی حاصل کی گئی مگر بہت سے لوگ جو محنت کر بھی لی تو اعلی تعلیم کے لئے ہزاروں اور لاکھوں روپے جمع نہیں کر سکتے آج اس مہنگائی کے دور میں دووقت کا کھانا مل جانا عزت کی بات ہے. وہاں کوئی چاہ کر بھی بڑے اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا.
Higher Education
ہمارے ملک میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کو لیپ ٹاپ تو ضرور دئیے جا رہے ہیں۔ جو کہ ایک حد تک طلبہ کی ضرورت بھی ہے مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی رسائی ہی ان تعلیمی اداروں تک نہیں کیا ان کا حق ان لیپ ٹاپس پر نہیں بنتا؟؟؟ چلیں ان لیپ ٹاپس کو ایک طرف رہنے دیں کیا ایسے طلبہ کے لئے سو فیصد سکالرشپس نہیں نکالی جا سکتی جو حالت سے مجبور ہو کر بے بسی اور ناامیدی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں ہی ہمارے ملک کا مستقبل ہیں آگے چل کر انہوں نے ہی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے مگر آج ہم یہ سب بھول کر صرف نمودونمائش میں لگے ہیں۔ اللہ نے کوئی مقام دیا ہے تو یہ بھول کر غرور میں مبتلا ہیں کہ یہ ہمارے پاس ہی رہے گا مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ذی نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور ہرعروج کو زوال ہے. کچھ بھی مل جائے دولت: شہرت: کامیابی: عہدہاور جوانی سب کا ایک وقت اللہ نے مقرر کر رکھا ہے. اور ایک دن سب ختم ہو جائے گا.
آج صرف یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کس طرح تیار کر رہے ہیں۔ اور کیا ہم ان کے دماغوں میں صرف ڈیٹا ڈال کر ان کو پیسے کمانے والی مشین بنانا چاہتے ہیں۔ یا ان کو سہولیات فراہم کر کے اچھے اور باکردار اساتذہ جو ان کی شخصیت سازی کر سکیں ان کے حوالے کیا جائے۔ تاکہ صرف پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل نہ ہوں بلکل تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دوسروں تک وہ علم پہنچانا اپنا فرض سمجھے. آج کے دور میں ایک لفظ بتانے کے لئے بھی لوگ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیںـ افسوس کے آج ہر کوئی تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے اور دماغ میں بس ایک سوچ لے کر جاتا ہے میں پڑھ کر اتنے پیسے کماوں گا یہاں اس گریڈ کی نوکری ملے کی زندگی سکون سے گزر جائے گی.
بس ایک بات دماغ میں نہیں ہوتی تو وہ یہ کہ میں نے تعلیم حاصل کر کے دوسروں تک پہنچانی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے.”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”اس حدیث مبارکہ سے ایک نقطہ اور دماغ میں آتا ہے کہ اسلام نے تو مرد اور عورت دونوں کے لئے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے مگر افسوس کہ آج پاکستان جیسے اسلامی ملک میں خواتین کو تعیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس کی ایک خاص وجہ سوچ ہے جو کہ اکیسویں صدی میں بھی نہیں بدلی جا سکی. چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں آج بھی عورتوں کو سکول کالج نہیں جانے دیا جاتا. اگر جانے دے بھی دیا جائے تو صرف میٹرک کروا دینے کو بہت بڑی بات سمجھا جاتا ہے. ایک عورت کا تعلیم حاصل کرنا سارے خاندان کا تعلیم حاصل کرنے کے برابر ہے.اس بات کو پس پشت ڈال کر سارے توجہ لڑکوں پر مرکوزکر دی گئی ہے.
Girls Education
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں عورتوں کو مردوں سے کمتر سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے تعلیم حاصل کرنے کے معاملے میں تنگ نظری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے. اب وقت ہے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھ کر تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا جائے کیونکہ ہماری ترقی اور کامیابی اسی میں ہے کہ ہم ایک مستحکم معاشرہ وجود میں لائیں جس میں ہر ایک انسان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہو چاہے وہ غریب ہو عورت ہو مرد ہو یا غیر مسلم ہو . با عمل تعلیم جو انسان بنائے اور انسانیت سے محبت کرنے کا درس دے نہ کہ پیسے کمانے کی مشین بنا کر خود غرض بنا دے اور احساس کرنا دلوں سے ختم ہو جائے کیونکہ جب احساس کرنے والا دل ہی نہ رہے تو انسان میں باقی رہ ہی کیا جاتا ہے.