کراچی (جیوڈیسک) سابق ٹیسٹ کپتان و سابق چیف سلیکٹر راشد لطیف نے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی تباہی کا آغاز مصباح الحق کو قیادت سے ہٹاتے ہی شروع ہوگیا تھا، پی سی بی کے ذمے داران کی پے درپے غلطیوں کی وجہ سے آج قومی ٹیم مشکلات کا شکار ہے، وقاریونس کو کوچ بنانا سب سے بڑی غلطی تھی، شک سے بالاتر کسی نوجوان کھلاڑی کو کپتان بنایا جائے۔
اپنے ایک انٹر ویو میں راشد لطیف کا کہنا تھا کہ بورڈ مستقبل میں بہتری کے لیے پلیئرزکانفرنس طلب کرکے آرا وتجاویز کوتحریری شکل دیکران پر عملدرآمد ممکن بنائے، پاکستان کرکٹ ٹیم کی ہار کی وجوہات ابھی کی نہیں ہیں بلکہ جس دن سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کو کپتانی سے ہٹوا کر محمد حفیظ کو باگ ڈور سونپی تھی اس دن ہی سے پاکستان کرکٹ کی تباہی شروع ہوگئی تھی۔
اگر ہم اس سے پہلے نظر دوڑائیں تو جب کپتان یونس خان کے خلاف بغاوت ہوئی تو اس وقت یاور سعید مرحوم کا کردار اچھا نہ تھا جس کے بعد یونس خان نے کپتانی چھوڑ دی تھی، اس کے علاوہ 2010 میں انگلینڈ کے دورے پر جب شاہد خان آفریدی نے قومی ٹیم کی کپتانی چھوڑ دی تھی اور سلمان بٹ کو کپتان بنا دیا گیا تھا، وہ بھی ایک اسکرپٹ تھا جس میں کئی لوگوں کا کردار تھا،
راشد لطیف نے کہا کہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد مشکل حالات میں مصباح الحق نے قیادت سنبھال کر کامیابی کے سفر کا آغاز کیا۔ جب بورڈ کے کہنے پر مصباح نے حفیظ کے لیے جگہ چھوڑی تو اس وقت بورڈ نے سوچا کہ اب قومی ٹیم اچھی کارکردگی دکھا نے میں کامیاب رہے گی لیکن اسے بری طرح ناکامی کا سامنا رہا، بعدازاں نجم سیٹھی نے بھی حفیظ کو دستبردار ہوجانے کو کہا، پھر حفیظ نے سابق ٹیسٹ کپتان اور اس وقت ٹیم کے کوچ معین خان کیساتھ ملکر ایک پریس کانفرنس کی۔
اسی رات وقار یونس دبئی سے پاکستان پہنچے اور نجم سیٹھی سے رات کی تنہائی میں انکے گھر پر ملاقات کی۔ اس حوالے سے ہم نے معین خان کا آگاہ بھی کردیا تھا، میرے منع کرنے کے باجود معین خان کوچ کا عہدہ چھوڑکرچیف سلیکٹر بن گئے اور وقار یونس نے قومی ٹیم کے کوچ کا عہدہ قبول کرلیا، قلیل عرصے میں 4 کپتان تبدیل ہوئے جن میں یونس خان، سلمان بٹ، مصباح اور محمد حفیظ شامل تھے جب کہ2011 میں شاہد آفریدی کو ون ڈے ٹیم کا کپتان نامزدکردیا گیا، یہ سب بورڈ کے چیئرمین اور اس وقت کے عہدے داروں کی غلطیاں تھیں اور اس کے اثرات اب اس ایشیا کپ میں بھی سامنے آگئے۔
راشد لطیف نے مزید کہا کہ وقار یونس ، گرانٹ فلاور اور مشتاق احمد کو کوچنگ کی ذمے داریاں دینا بورڈ کی بہت بڑی حماقت تھی اور ساتھ ساتھ اظہر علی کو ون دے کرکٹ ٹیم کا کپتان بنانا جلتی پر تیل کے مترادف رہا،ایک سال پہلے ہی چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے شاہد آفریدی کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے کپتان مقرر کر دیا اور آج ہم ہارنے کی وجوہات ڈھونڈھ رہے ہیں، راشد لطیف نے سوال کیا کہ کیا بورڈ مصباح الحق کو تینوں فارمیٹ میں اب تک کپتان نہیں رکھ سکتا تھا ؟
ہم نے اوپنرز میں خرم ، ناصر، رفعت ، بلال آصف ، نعمان انور ، مختار، بابراعظم اوردیگر کھلاڑیوں کو کیوں استعمال کیا اور اگر کیا بھی تو ایک سے تین میچزکھلا کرباہرکیوں کردیا،10 میچز تو دیے جاتے، ہمارے پاس سرفراز احمد جیسا باصلاحیت کھلاڑی موجود تھا جو اس نمبر پر کھیل سکتا ہے اور عالمی کپ میں اس نے ثابت بھی کیا، راشد لطیف نے موقف اختیار کیا کہ بورڈ کا چیرمین وزیراعظم تعینات کرتے ہیں اور چیئرمین دوسری اہم ذمے داریوں سے لوگوں کو نوازتے ہیں، سابق ٹیسٹ کپتان نے کہا کہ بورڈکی یکے بعد دیگرے غلطیوں کی وجہ سے آج ہماری ٹیم مشکلات کا شکار ہے۔
آج ایشیائی کپ میں ہارنے کی وجہ معلوم کررہے ہیں توہمیں دیکھنا ہو گاکہ بورڈ نے پچھلے تین سالوں میں کہاں کہاں غلطیاں کیں اور اس وقت کون کون بورڈ کو چلا رہا تھا، دوسری جانب چیف کوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ انھیں بھی قومی ٹیم کی سلیکشن کے لیے کمیٹی میں رکھا جائے،کیا اس سے قبل کھلاڑیوں کے انتخاب میں ان کی رائے شامل نہیں ہوتی تھی، اگر نہیں تو اب دو سال بعد ان کوکیوں خیال آگیا، راشد لطیف نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی وقت ہے،مصباح الحق اور یونس خان کی خدمات کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے فارمیٹ کے لیے دوسرے روپ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کوچ یا مینٹور بنا کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ دونوں صرف ٹیسٹ کھیل رہے ہیں، علاوہ ازیں آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کے بعد کسی ایسے نوجوان کھلاڑی کوقیادت سونپی جائے جس کے کردار پر شک نہ ہو، راشد لطیف نے اپنی تجویز میں کہاکہ پی سی بی پلیئرز کانفرنس طلب کرکے تمام کپتانوں کو مدعو کرے۔
علاوہ ازیں ریجن کے سربراہان اور پی ایس ایل میں شامل پانچوں فرینچائززکوبھی دعوت دیکران کی آرا پر بحث کے بعد تحریری تجاویز تیار کرکے پاکستان کرکٹ کو ایک نئی راہ پرگامزن کیا جائے جس میں ڈومیسٹک کرکٹ ، اکیڈمی ، انڈر19 ، پاکستان ٹیم ، اسکول کرکٹ ، کلب کرکٹ ،قیادت اور کوچز کے بارے میں فیصلے کیے جائیں جو پاکستان ٹیم کے لیے مفید ثابت ہوں۔