تحریر: نسیم الحق زاہدی چند روز قبل ہاضمہ کی درستگی کے لئے ایک حکیم صاحب نے ایک نسخہ تجویز فرمایا پاپڑ منڈی پنسار بازار سے نسخہ خریدنے کے بعد اس کی بہترین پسائی کے لئے مسجد محمد خان چوک متی منج کٹاں اندرون لوہاری گیٹ کے ساتھ ایک پسائی والے ہیں جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ دوائی میں ہیرا پھیری نہیں کرتے ورنہ تو پنساری نسخہ پیستے پیستے قیمتی ادویات نکال لیتے ہیں لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے انتظار کرنا پڑا اور دوسرا موصوف سے پہلے کسی صاحب کے نسخے کی پسائی کی تیاری ہو رہی تھی ایک بڑا سالو ہے کاٹب جوکے لوکل کمپنیز کی پونسٹان، ڈیکسا میتھاسون اور سپرئو فلاکساسین گولیوں سے بھرا ہوا تھا اور پسائی والے جو ان اپنے منہ سے گھٹیا ترین فوڈسیپلمنٹ جو کہ جانوروں کے استعمال کے قابل بھی نہیں ہوگا کے لفافے منہ سے کھول کھول کر گولیوں کے اوپر ڈال رہے تھے ان میڈیسن کی پہچان افادیت اور نقصانات کے متعلق آگاہی دور طفل مکتبی میں اُس وقت ہوئی جب غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر عرصہ 4 سال تک ایک میڈیکل سٹور پر ملازمت کرنی پڑی پوچھنے پرپسائی والے نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ یہ ایک ڈاکٹر صاحب کا نسخہ ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ جن کے دو ہی کیپسولز ہر بیماری کے لئے مفید ہیں ڈیکسا میتھاسون جو کہ ایک Strider medicine جو کہ فوری طور پر دوسری دواء کے اثر کو پُر اثر تو بناتی ہے مگر دل، جگر، گردوں کے لئے انتہائی مضر ہے یہ کیپسولز فور ی طور پر ہر قسم کی دردوں ، بخار سے افاکے کے ساتھ ساتھ جسم کو انتہائی تیزی سے فربہ کرتے ہیں۔
جن سے سانس سمیت کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں انٹی بائیو ٹک معدے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ جگر کے افعال کو متاثر کرتی ہے اور کئی امراض کا موجب بنتی ہے اور گردوں کو تیزی سے نقصان پہنچاتی ہے قصہ مختصر یہ قیمتی نسخہ جن ادویات کی آمیز یش سے تیار کیا جا رہا تھا وہ ایک پُر اثر مگر آہستہ اثر کرنے والی زہر تھی۔ جس کے استعمال سے مریض بظاہر تو اپنے آپ کو تندرست و توانا محسوس کرتا ہے مگر آہستہ آہستہ اپنی قوت معدافت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو کر کئی موزی امراض کا شکار ہو جاتا ہے دکھ اس بات کا نہیں کہ پاکستان میں ایک غریب آدمی اپنا علاج بھی نہیں کروا سکتا رنج تو اس بات کا ہے کہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود بھی اصل ادویات کا ملنا ناممکن ہے ہپیا ٹائٹس بی، سی دونوں Screening Test Kits مارکیٹ میں 50 سے 60 روپے میں دستیاب ہے بلڈ لے کر سیرم نکال کر رپورٹ کی تیار ی تک 90 یا 100 روپے کا خرچہ آتا ہے عام لیبا رٹریوں میں یہ ٹیسٹ 700 سے لیکر اچھی لیبارٹریوں میں 2 سے 3 ہزار روپے میں ہوتا ہے جو زیا دتی نہیں بلکہ ظلم ہے مگر احتجاج بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر ڈاکٹر اپنی تجویز کردہ لیبارٹریوں کے ٹیسٹوں کے رزلٹ کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ ان لیبارٹریوں کے ساتھ ڈاکٹر حضرات کے باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں ٹیسٹ لکھنے پر حصہ ملتا ہے مزنگ تکیہ سردار شاہ میں ایک بچوں کے بڑے مشہور ڈاکٹر ہیں جن کا عام بخار کا نسخہ 1000 روپے سے کم کا نہیں ہوتا اور اُن کی تجویز کردہ ادویات صرف ایک میڈیکل سٹور پر ہی دستیاب ہوتی ہیں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کے کمرہ میں جو اے۔ سی لگا ہے وہ اسی کمپنی کی دین ہے اور ہر دوائی کی پر چی پر ڈاکٹر کا چالیس فیصد حصہ ہو تا ہے
Doctor
ڈاکٹر BP چیک کرنے کے 50 روپے لیتا ہے ایسا سب کچھ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی عدم توجگی کی وجہ سے ہوتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے وہاں پر اکثر ڈاکٹرز کو دوران ڈیوٹی گپیں ہانکنے یا چائے کافی پیتے ہی دیکھا ہے گنگارام ہسپتال میں ایک دوست کے ساتھ گیا جس کو معمولی سامعدے کا مسئلہ تھا ڈاکٹر نے جو ادویات لکھیں یقین جانیے وہ صرف گنگارام ہسپتال کے سامنے ہی ایک منتخب کردہ میڈیکل سٹور سے ملی لوکل کمپنیز جبکہ اسی سالٹ فارمولے میں نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیز کی ادویات بھی موجود تھیں مگر ڈاکٹر کی خصوصی ہدایات تھیں کہ ان لکھی ہوئی ادویات لینی ہی ضروری ہیں ڈاکٹر کو مسیحا کہا جاتا ہے
جو مریض کو موت سے تو نہیں بچا سکتا البتہ اذیت کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے مگر جب راہبر ہی راہزن بن جائیں تو لٹنا تو طے ہو جاتاہے یہ حال صرف گنگارام ہسپتال کا نہیں بلکہ ہر سرکاری ہسپتال کا یہی حال ہے جس کی سفارش یا کوئی تعلق واسطہ ہوتا ہے اس کو پر ٹوکول بھی ملتا ہے علاج بھی ہوتا ہے اور ٹیسٹ بھی فری ہوتے ہیں Sample کی میڈیسن بھی سعنایت ہوتی ہے غریب کا کوئی پر سانے حال نہیں سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ عوام کی حفاظت اور زندگی کو بچانے کی قسمیں کھا کر حلف اُٹھا کر نوکر یاں حاصل کر تے ہیں اور پھر اسی عوام کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں پر ائیویٹ ہسپتالوں میں غریب علاج کرا نہیں سکتا اور سرکاری ہسپتالوں میں غریب کا علاج ممکن نہیں بیشک خادم اعلیٰ پنجاب نے دوسرے تمام محکموں کی طرح محکمہ ہیلتھ کی بہتری کے لئے جو کارنامے سر انجام دیئے ہیں وہ قابل ستائش اور قابل تعریف ہیں مگر افسوس کہ جھوٹ فراڈ دو نمبری ہمارے خون میں رس بس چکی ہیں
یہ دکھ کی باتیں ہیں کہ آج ڈاکٹرز اپنے حقوق کی باتیں کرتے ہیں آئے دن ہڑتالیں مگر ان کو اپنے فرائض یاد ہی نہیں فرمان الہیٰ ہے کہ جس شخص نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا فتح مصر کے موقع پر مسلم سپہ نے حضرت عمر کو مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ بھیجا جس میں درج تھا میرے سپاہی اس قد ر دیانتدار ہیں کہ اگر کسی کو سونے کی انٹ بھی ملی تو اس نے مال غنیمت کے سپرد کر دی خط پڑھ کر عمر فاروق اشک بار ہوگئے ساتھ حضرت علی بیٹھے تھے وہ پریشان ہو کر پوچھنے لگے محاض جنگ سے کوئی بری خبر ہے کیا؟ حضرت عمر نے فر مایا اے علی ! یہ خوشی کے آنسو ہیں ساری بات سن کر حضرت علی نے ایک ایسا تاریخ سا جملہ کہا جو آج بھی سنہری حروف میں جگمگا رہا ہے ” یہ سپاہیوں کی دیانت کا کرشمہ نہیں بلکہ آپ کی دیانت کا کرشمہ ہے عمر آپ اگر دیانت دار نہ ہوتے تو سپاہیوں میں کبھی یہ وصف پیدا نہ ہو سکتی تھی اگر ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی کو فرض سمجھ کر ادا کر یں تو غریبوں کو علاج کے لئے ان جعلی موت کے سوداگروں کے ہا تھ لٹنا نہ پڑے مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے طرز ِ منافقت دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں