تحریر : محترمہ عفت مقبول صاحبہ قرآن پاک میں ہر سورت مبارکہ کا اپنا انداز اور اہمیت ہے ۔ مگر کہیں ایسا رخ دکھائی دیتا ہے جس سے معاملات اور حالات چشم زدن میں پلٹ جاتے ہیں ۔ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی وحی کو حکم الہیٰ سے محدود انداز میں اپنے قریبی لوگوں تک پہنچایا ۔اس کے بعد جب اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ اب دعوت عام کر دیں تو پھر اطاعت الہیٰ کیلئے پیغام سر عام کیا گیا ۔اس کے بعد نو مسلموں پر مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ مگر اس طرف حق تھا جو رب اللعالمین کی طرف سے تھا ناممکنات کو کیسے ممکن بنانا ہے اور کیسے پتھر دل نرم کرنے ہیں اس کلام میں یہ تاثیر موجود تھی۔
لہٰذا وقت تو لگا طویل صبر آزما سفر تھا مگر کامیابی مشروط ہے حق سچ کے ساتھ اور اس پیام کو نافذ ہو کر رہنا تھا لہٰذا وہ ہو کر رہا ۔ التوبہ سے پہلے قرآن پاک کی سورہ مبارکہ مسلسل نرم گوئی سے بیان ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ کیلئے کہا گیا اور نتائج نہ نکلنے کی صورت میں آپکو بار بار کہا گیا کہ آپ کے ذمہ صرف پیغام دینا ہے ہدایت دینااللہ رب العزت کے ہاتھ ہے۔
ترغیب دینے کا حکم ملتا رہا اللہ کی جانب سے اور جب مشرکین کفار منافقین کو طویل مدت دی گئی سوچنے کیلئے ہدایت کی جانب آنے کیلئے مگر وہ معاہدوں کو توڑتے رہے بڑائی کے زعم میں اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحمل برداشت کا ثبوت دیتے رہے ۔ مگر پھر وحی نازل ہوئی سورت التوبة کی سورت ایسی تحکم آمیز حتمی آیات تھیں اور اتنے واضح الفاظ اور اس پر حج اکبر کا دن اعلان کرنے والے حضرت علی کرم اللہ وجہة کفار مکہ منافقین کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس سورت مبارکہ کے آغاز میں کفارکو مخاطب کر کے واضح کر دیا گیا کہ اب حق پر بلانے کا وقت فیصلہ کن مرحلے میں ہے خانہ کعبہ کو بتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاک کر کے اللہ کیلئے قائم ہوئے گھر کو قیامت تک صرف اور صرف وحدہ لا شریک کیلئے مقرر کرناہوگا۔
ALLAH
اللہ پاک کا یہ حکم پورے جاہ و جلال کے ساتھ اس شان سے اترا کہ سبحان اللہ سورت التوبة کی تفصیل سلسلہ وار جاری رہے گی ابتداء میں اسکی تفصیلات اور کچھ خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورت التوبہ کی کچھ نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں ترتیب کے حساب سے 9 ویں نمبر کی سورت مبارکہ 16 رکوع ہیں 129 آیات ہیں 7 بڑی سورتوں میں شمار ہوتا ہے مدینہ کے آخری دورمیں نزول ہوا جس کا انداذہ اس کے مضمون سے لگتا ہے دوسری سورتوں سے منفرد اس لحاظ سے ہے کہ اس کا آغاز بسمہ اللہ سے نہیں ہوتا ۔ اللہ کے نبی نے نہیں لکھوائی اس لئے اس کی بحث نہیں ہونی چاہیۓ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم قرآن پاک میں کسی حرف کا اضافہ نہیں کر سکتے ٌ کہا جاتا ہے کہ سورت الانفعال اور توبہ ایک ہی سورت ہے ان دونوں کو قرین تعین دو ساتھی بھی کہا جاتا ہے بسمہ اللہ نہ ہونے کی وجہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں بیان کئے گئے مضامین ملتے جلتے ہیں۔
بسمہ اللہ کے ابتداء میں نہ ہونے کی وجہ علمائے کرام یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ بسمہ اللہ میں امان ہوتی ہے یہاں کفار سے امان ہٹائی جا رہی ہے ان پر حکم عدولی کی سورت میں سخت سزا کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ سورت التوبہ کے بارے میں کچھ اہم تفصیلات درج ذیل ہیں سور توبہ کے علاوہ اس کا دوسرا نام برآت بھی ہے اور یہ بیزارگی کو کہتے ہیں ۔ ایک اور نام الکاشفہ یعنی حالات کھولنے والی اس سورت میں منافقین کے دوہرے معیار کو کھول کر بیان کیا گیا ہے ۔ منافقوں کو رسوا کرنے والی سورت کہہ سکتے ہیں ۔ یہ سورت قرآن پاک کی معروف سورت کیوں ہے؟ اس سورت میں 17 بار لفظ توبہ آتا ہے سورت البقرہ 13 بار یہ لفظ گزرا ہے سورت انسا 12 بار لفظ توبہ آیا ہے پھر بھی ہم توبہ کی اہمیت سے بے پرواہ ہیں۔
اس سورت میں اکھٹے 3 مخلص صحابہ کی توبہ کا ذکرہے جن کی توبہ انتہائی خوبصورت تھی سبق آموز تھی ۔ سورت توبہ کا بیشتر حصہ9 ویں ھجری میں نازل ہوا ۔ بنیادی مضامین میں غزوہ تبوک کا ذکر ہے ۔ فتح مکہ کے بعد اگلے سال اس کا مزیدحصہ نازل ہوا اس سورت میں پہلی بار اللہ پاک نے دو ٹوک انداز میں منافقین کا پول کھول کر اعلان کر دیا کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے اب اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا اور بت کدہ ختم ہو کر خانہ خُدا اب صرف اللہ کے پاک وجود سے پہچانا جائے گا ۔ 4 مہینوں کی مہلت دی گئی کفار کو کہ وہ چاہیں تو اسلام قبول کر لیں یا پھر وہ اس شہر کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں اور اس کے لئے انہیں 4 ماہ کا وقت دیا گیا۔
Holy Quran
اس وقت کے بعد حکم دیا گیا کہ اب مسلمان کفار کو جہاں دیکھیں وہاں مار سکتے ہیں تاکہ شر ختم ہو اور اسلام کو پوری طاقت کے ساتھ پروان چڑہایا جائے ۔ ورنہ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت ہوگی کہ وہ جہان دیکھیں ان کو مار دیں ۔ پہلی بار بہت دو ٹوک انداز اپنایا گیا ۔ یہ وہ سورت ہے جس نے منافقین کو کھول کر بیان کیا یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس سورت کو نافقین پسند نہیں کرتے اور اسلام دشمنوں کے ساتھ انسانیت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسکو پڑھے بغیر سمجھے بغیر اس کو قرآن پاک سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اور آج مسلمانوں سے زیادہ کفار پڑھتے ہیں تا کہ اس کے مضامین کو کمزور عقائد رکھنے والے مسلمانوں سے بحث کر کے انہیں قائل کر سکیں اپنے علم کی کسوٹی پر۔
اسلام کے خلاف جو شوشے اور پراپیگنڈے اٹھتے ہیں وہ اسی کے متن کو متضاد بنا کر اٹھائے جاتے ہیں ۔ ہمارے پڑھے لکھے ڈگری ہولڈرز کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں کیونکہ وہ کوسوں دور ہیں قرآن پاک سے یہ سورت سمجھنی سمجھانی اس لئے اہم ہے کہ مکمل جزویات اور احکامات کی روشنی میں اسکو واضح کیا جا سکے ۔ یہ سورت جوان نسل کو سمجھانے سنانے کی ضرورت ہے ۔ اس سورت کی کئی مزید خوبیاں ہیں جو اسکو ممیز کرتی ہیں۔
اس سورت میں بسمہ اللہ نہیں ہے سورت التوبہ کے آغاز میں بسمہ اللہ نہیں ہے اس لئے جب قرآن پاک کو درمیان میں سے کہیں سے پڑہیں تو بسمہ اللہ نہ پڑہیں بلکہ آعوز باللہ سے شروع کریں یعنی اللہ پاک کے کہے ہوئے الفاظ میں اضافہ ممکن نہیں جیسے ہم ربنا اتنا فی دنیا میں کئی اضافے کر دیتے ہیں جو غلط ہے اتنی ہی دعا پڑہیں جتنی قرآن پاک میں موجود ہے۔