کراچی (جیوڈیسک) پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت ملازمین کی تعداد میں کمی کے حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے اور نج کاری کمیشن کی تجویز کی روشنی میں ورکنگ پیپر تیار کرلیا ہے جو 31مارچ کو بورڈ کی ایچ آر کمیٹی سے منظوری کے بعد یکم اپریل کو بورڈ کے اجلاس میں پیش کیا جائیگا۔
اس چار صفحاتی ورکنگ پیپر کے مطابق پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت ملازمین کی تعداد میں کمی کیلیے نج کاری کمیشن کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملازمین کی چھانٹیوں کیلیے پاکستان کمرشل اینڈ انڈسٹریل ایمپلائمنٹ آرڈیننس 1968 کا سہارا لینے میں قانونی قباحت کا سامنا ہے۔
پاکستان اسٹیل میں پیداواری عمل گیس کی بندش کی وجہ سے عارضی طورپر معطل ہے اور گیس کی سپلائی کا کنٹرول بھی حکومتی ادارے کے ہاتھ میں ہے، پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور منصوبے کے تناطر میں پاکستان اسٹیل کی اسٹریٹجک اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اس منصوبے کے لیے اسٹیل کی طلب 2سے 3ملین ٹن بڑھ جائیگی جو کافی حد تک پاکستان اسٹیل کے ذریعے پوری کی جاسکتی ہے۔
اس تناظر میں پاکستان اسٹیل کے پلانٹ کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پلانٹ بندہونے سے دیگر تمام کارخانوں کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ملز انتظامیہ نے موجودہ کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت ملازمین کی تعداد کی بھی تفصیل سے وضاحت کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نج کاری کمیشن کی جانب سے وزارت صنعت و پیدار کو ارسال کردہ 24مارچ کے خط میں حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے افرادی قوت میں کمی کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کی چھانٹیوں سے بھی صاف انکار کردیا ہے۔ ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل میں ریگولر، ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کی تعداد 2008کی 17ہزار 359 ملازمین کے مقابلے میں کم ترین سطح پر آچکی ہے 2008میں ریگولر ملازمین کی تعداد 12ہزار 246جبکہ کنٹریکٹ اور یومیہ اجرت ملازمین کی تعداد 5ہزار 323 تھی جو سال 2016میں کم ہوکر بالترتیب 13ہزار 30اور 782پر آچکی ہے۔
پاکستان اسٹیل کو 12ہزار 823ریگولر اور 2ہزار 642 کنٹریکٹ یا یومیہ اجرت ملازمین کی ضرورت ہے۔ ریگولر ملازمین تیزی سے ریٹائر ہورہے ہیں، اس لیے کنٹریکٹ اور یومیہ اجرات ملازمین میں کمی کے بجائے اضافے کی ضرورت ہے۔ ورکنگ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کا پلانٹ 35سال پرانا ہے جس کی مسلسل مرمت اور دیکھ بھال کیلیے ریگولر اور کنٹریکٹ ملازمین کی ضرورت ہے یہ تاثر غلط ہے کہ جون 2015میں گیس کی سپلائی بند ہونے کے بعد پاکستان اسٹیل کا پلانٹ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔
گیس سپلائی بند ہونے کے باوجود پاکستان اسٹیل کے اہم پلانٹس بشمول کوک اوون بیٹری اور ری فیکٹری مل ہیٹنگ پر چل رہے ہیں اسی طرح 8ماہ کے دوران بیشتر پلانٹس کی مرمت اور کی جاتی رہی تاکہ قومی اثاثے کے تحفظ کیلیے انہیں چالو حالت میں رکھا جاسکے۔