تحریر: سید توقیر زیدی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے نواب سے تعلق رکھنے والے بزرگ چا چا رمضان بانسری نواز جنہیں مقامی لوگ استاد رمضان کے نام سے مخاطب کرکے بہت عزت اور محبت سے ملتے ہیں رمضان استاد ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے وہ انمول رتن ہیں جنہوں نے مقامی ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ اپنے شہر اور ملک کی بے لوث خدمت کی لیکن رمضان استاد جیسے سادہ اور بے لوث لوگ جو چلتر بازیوں اور چالاکیوں سے کہیں دور ہوتے ہیں وہ وقت کی بے رحم گردشوں کے گرداب میں پھنس کر اپنی سادگیوں سمیت وقت کی دبیز چادر میں کہیں چھپ جاتے ہیں یا یوں کہیں ایسے لوگ اپنی سادگی اورحیا کی لاج رکھتے ہوئے دنیا سے کنارہ کش ہوکر اور ایک کونے میں بیٹھ کر دنیا کی چلتر بازیوں پر ماتم کرتے رہتے ہیں۔
رمضان استاد بانسری نواز بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں جو ستر سے سال زائد زندگی کی بہاریں دیکھنے کے بعد بھی کم سنوں کی طرح شرم وحیا اب بھی ان کے چہرے کے گرد ہالا کی کیے رکھتی ہے وہ آج بھی اپنے اجداد کی پیروی میں قناعت پسند زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں ان جیسے نایاب لوگوں کا اس دور میں ملنا تقریباً ناممکن بات ہے کہ ہر بندہ مفاد پرستی کے اس دور میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں ہے اس حوالے سے ڈیرہ شہرکی سرزمین اہمیت کی حامل ہے کہ اگر ڈھونڈنے نکلیں تو ہر گام پہ کسی بے نشاں کا نشاں نظر آئے گا ایسی کئی چہرے ہیں جو دنیا کی چکا چوند کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اوربغیر کسی شان و شوکت کے دنیا ہی میں گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں ضلع ڈیرہ کی دھرتی کے کئی انمول موتی اپنی سادگی میںدھرتی کی خاک میں خاک ہوگئے اور کچھ ایسے انمول چہرے ہیں جو اپنوں ہی کے ہاتھوں بے توجہی کا شکار ہوکر ایک کونے میں چپ سادھ کے بیٹھ گئے ہیں۔
ان شخصیات میں ایک نام رمضان استاد کا بھی ہے جو اپنے وقت کے ایک ماہر بانسری نواز رہے اور بانسری کی سروں میں موتیوں کو پروتے رہے انہوں نے اپنے فن کے ذریعے ہمیشہ ڈیرہ کی ثقافت کو جہاں عروج بخشا وہاں اپنے وسیب کی عوام کو بھی نئی جلابخشی اور سرائیکی وسیب سمیت پاکستان کا نام روشن کیا آج بھی ان کے شاگرد ڈیرہ سمیت پاکستان کے کئی کونوں میں ان کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں رمضان استاد کے چاہنے والے سات سمندر پار بیٹھ کر بھی ان کو بڑی عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں جو رمضان استاد کے دئیے ہوئے اعلیٰ اقدار کی عکاسی ہے ترقی کے اس دور میں بھی ضلع ڈیرہ کا مضافاتی علاقہ موضع نواب آج بھی ڈیرہ شہر سے کافی دور لگتا ہے جہاں کے لوگ نفسا نفسی کے اس دور میں اپنی ازلی سادگیوں کی پاسداری کررہے ہیں چاچا رمضان بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جوکفایت شعاری کی زندگی میں اپنی زندگی کے ایام بسر کررہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ضلع ڈیرہ میں وہ بانسری کے فن کو بام عروج پر لے گئے بانسری کا تصور عمومی معلومات کے مطابق ہزاروں برس قدیم ہے جس کو وقت کے ساتھ آلات موسیقی میں سب سے اہم قرار دیا جانے لگا اور بانسری نے ایک ملکہ کا روپ دھا ر لیا جو اپنی سروں کے ذریعے کسی بھی چیز کو ساکن کرنے کی صلاحیت سے لیس تھی رمضان استاد بھی کمسنی کے دنوں میں اس ملکہ کے عشق میں گرفتار ہوگئے اور اس کے بعد ملکہ کی سروں کو قید کرلینے کے جنون نے ان کو عشق کے کئی پرپیچ راستوں پر چلایا جہاں انسان آبلہ پائی کے باوجود بھی اپنے جنون کی خاطر سفر کرتا ہے اور منزل تک پہنچنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے رمضان استاد جو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا بجا طور پر فخر ہیں لیکن آج کی اکثریتی نوجوان نسل کو ان کے نام سے واقفیت نہیں ہوگی اس کی وجہ رمضان چاچا کی وہ گوشہ نشینی ہے جس کے پیچھے ان کی ازلی سادگی ہے جو اتنا نام کمانے اور لاتعداد شاگرد ہونے کے باوجود بھی کنارہ کشی کو ترجیح دیتے ہیں فن موسیقی میں ذرا سی بھی دلچسپی رکھنے والے افراد رمضان استاد کا نام بڑی عقیدت اور محبت سے لیتے ہیں رمضان استاد کی ڈیرہ کی عوام کے لیئے کی گئی اپنی خدمات کے عوض آج ڈیرہ کی عوام کا بھی حق ہے کہ وہ انہیں ان کی زندگی میں ہی وہ مقام اور اہمیت دینے کی سعی کریں جس کی طلب میں بڑے بڑے نام مٹی کی تہہ اوڑھ کر سو جاتے ہیں لیکن بد نصیب قومیں ایسے لوگوں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی بمشکل ان کو کچھ عرصہ یاد رکھتے ہیں اور جو قومیں اپنے اجداد کے اقدار کی ضامن اور ثقافت کی امین نہیںبنتی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھی ایسی قوموں کی روایات کی پاسداری نہیں کرتی رمضان استاد بانسری نواز صرف ضلع ڈیرہ کے ہی نہیں بلکہ سرائیکی وسیب سیمت پورے پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں جن کو ان کی خدمات کے صلہ میں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے ان جیسے لوگ جو خالصتاً عوامی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں صلے میں عوامی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے منتظر رہتے ہیں اور یہی حوصلے ان کے لیئے ایندھن کا کام کرتے ہے جن سے ان کی زندگیوں کو جلا ملتی ہے۔
Ustad Ramzan
ہزاروں دلوں پر راج کرنے والا یہ بندہ ایک درویش صفت بزرگ بھی ہے جو بظاہر تو پڑھا لکھا نہیں ہے لیکن اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں ایسے رستوں سے روشناس کراتا ہے جن سے دنیاد ار لوگ آشنا نہ ہوں،ان کے گرد ان کے شاگردوں کے علاوہ دور دراز مقامات سے آئے ہوئے لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہے جو ان کی بانسری کی دھنوں کو بڑے محبت سے سنتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بھی ان سے لیتے ہیں جسے چاچا رمضان بہت کھلے دل سے ان تک پہنچاتے رہتے ہیں تاکہ آج کی بھولی بھٹکی نسل بے راہ روی سے کنارہ کش ہوکر راہ راست پر آجائے وہ ہر کسی کو سادگی اور عاجزی کا درس دیتے ہیںکہ اسی میں ہی بہتری کا راز پنہاں ہے۔اچھے اقدار کے ضامن معاشرے ہمیشہ اپنی ثقافت کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں امن پسند روایات کا حصہ رہیں اور اجداد کی عکاس ہوں مگر بدقسمتی سے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رمضان استاد جیسے کئی لوگ مئہ کامل کی طرح بام عروج کی طرف گئے اور ایک وقت میں کسی گمنام انجم کی طرح اپنی ہی دھرتی باسیوں کے لیئے اجنبی ہوگئے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ جب کسی معاشرے سے اس کی ثقافتوں کا ذائقہ ہی چھین لیا جائے اور غربت و پسماندگی کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکیل دیا جائے تو رمضان استادجیسے سادہ لوح لوگ اپنے جائز حق کو لینے سے بھی گریز کرتے ظر آتے ہیں۔ علم و فنون کے وہ ادارے جنہیں چاہیے تھا کہ وہ ایسے لوگوں کے فن کو سراہتے اور ان کی خدمات کے صلے میں ان کو ان کی زندگی میں انکا جائز حق دیتے وہ آج ناکام نظر آرہے ہیں۔
رمضان چاچا سے اعتدال کی ٹیم نے ایک خصوصی انٹرویو لیاتاکہ ان کی باتوں کو ان کے چاہنے والوں تک پہنچا سکیں،آئیں آپ کوچاچا رمضان( رمضان استاد بانسری نواز) سے ملاتے ہیں۔
س : اسلام علیکم استاد جی! ج: واعلیکم سلام! س: آپ کیسے ہیں ؟ ج: جی اللہ پاک کا احسان ہے۔ س: آپ کو بانسری کا شوق کب ا ور کیسے ہوا؟ ج: بانسری سے مجھے شوق نہیں شاید عشق ہوا تھا اور یہ تب کی بات ہے جب میں سولہ برس کا تھا۔ س:بانسری آپ نے کس سے سیکھی؟ ج: بانسری میں میرے پہلے استاد محمود قصوریہ مرحوم تھے جن سے میں بانسری کا سبق 16 سال کی عمر میں سیکھنا شروع کیا اس کے بعد صاحبزادہ رفیق مرحوم سے بانسری میں مزید کلاسیکل کی دھنیں سیکھیں۔ س: کس کس نامور فنکار کے ساتھ آپ نے بانسری بجائی؟ ج: عطااللہ خان عیسویٰ خیلوی،منصور علی ملنگی، سلطان علی تانہ ، پٹھانے خان ،لطیف عرفانہ، لیاقت ساجدی پہاڑپوری، ستار زخمی، اشفاق دکھی، احسان روڑے والا، رحمت اللہ گنڈی والا، اور کئی مختلف فنکاروں کے ساتھ میں نے اپنے دور میں بانسری بجائی۔ س: سنا ہے آپ کی ایک دھن پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے پاس سو سال کیلئے محفوظ کی ہوئی ہے وہ کون سی دھن ہے ؟ ج: جی وہ سرائیکی وسیب کی ایک علاقائی دھن تھی ”بانہویں جانڑیں تے یار نہ جانڑیں میڈا ڈھول جوانیاں ماڑھڑیں”جو اس وقت کے PTV کے پروڈیوسر نسیم جان نے ریکارڈ کی تھی، چونکہ سرائیکی بہت میٹھی زبان ہے یہ سرائیکی دھن ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور سرائیکی وسیب کی ثقافت کی ترجمان تھی اس لیئے اس کو محفوظ کرلیا گیا اور آج تک پاکستان ٹیلی ویژن پر اسے نشر کیا جاتا ہے۔
س: آپ کے شاگردوں کی تعداد کتنی ہے اور آپ کے شاگردوں کا تعلق صرف ڈیرہ شہر سے ہے یا اس کے علاوہ باہر سے بھی آپ کے شاگرد ہیں؟ ج: جی الحمداللہ میرے شاگردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور میرے شاگرد وں کا تعلق نہ صرف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے بلکہ سرائیکی وسیب کے بہت سے علاقوں میں میرے شاگرد اپنے فن کا جادو جگا رہے ہیں۔
Ustad Ramzan
س: ڈیرہ شہر میں آپ کے کتنے شاگردہیں؟ ج: غلام عباس بانسری نواز، نجف نیازی ایڈوکیٹ، رحمت اللہ،حمید،شکیل اعوان اور کئی دیگر شاگرد ہیں۔ ج: ڈیرہ کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بانسری کے پروگرام کیئے؟ س: ڈیرہ کے علاوہ اسلام آباد، پشاور، کراچی،بنوں اور پنجاب کے مختلف شہروں میں کئی پروگراموں میں شرکت کی۔ س: پرائیوٹ محفلوں کے علاوہ سرکاری محفلوں کا بھی حصہ بنے؟ ج: ڈیرہ میں آرمی سنٹر اور پولیس سنٹر میں بھی کافی بار شرکت کرنے کا موقع ملااس کے علاوہ اپنے وقتوں کے ڈی سی اور کمشنر کے بھی پروگرامز میں بھی بانسری بجائی۔ دنیا میں جتنے بھی ساز ہیں ان میں بانسری ایک منفرد ساز ہے سنگیت کے حساب سے بانسری سب سازوں کی سردار ہے اس کے سر موسیقی کے دیگر آلات سے زیادہ ہیں ہارمونیم کی سروں سے اس کے سر زیادہ ہیں ۔ س: بانسری سیکھنے کے جنون میں تکالیف کا سامنا بھی کیا ہوگا؟ ج: یہ اس وقت کی بات ہے جب میں جوان ہوا کرتا تھا اور تب آمدورفت کے اتنے مؤثر ذرائع نہیں ہوا کرتے تھے لیکن بانسری کی سروں کے ساتھ ایسی وابستگی ہوگئی تھی کہ میں نواب سے ڈیرہ شہر کڑی علیزئی تک اکیلا پیدل شام کے وقت بانسری سیکھنے صاحبزادہ رفیق مرحوم اور محمود قصوریہ مرحوم کی جگہ پر جایا کرتا تھا جہاں سے میری واپسی رات کے دو بجے ہوا کرتی تھی کبھی کبھار اس بھی لیٹ میں ڈیرہ شہر سے رات کو پیدل سفر کرکے اکیلاگھر جاتا تھا،بس یہ تھا میرا جنون جس نے مجھے بانسری کا گروید ہ بنا رکھا تھا۔ س:کاروبار کے لحاظ سے کیا کرتے تھے؟ ج: کچھ خاص نہیں بس مال مویشی چراتا تھا۔
س:آپ کے والد صاحب کیا کرتے تھے؟ ج:والد صاحب کو گھڑا بجانے کا شوق تھا وہ گھڑا بجایا کرتے تھے میرے صاحب کی طرح کوئی بھی گھڑا نہیں بجا سکتا تھا،انہوں نے PTV پشاورپر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ س: آپ کے والد کے گھڑا بجانے میں خاص بات کیا تھی؟ ج: میرے والد صاحب کے گھڑا بجانے میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ ایک وقت میں گھڑے کے ساتھ گھنگھرو اور تالی بجاتے تھے۔ س: آپ کے والد صاحب نے کم و بیش کتنے فنکاروں کے ساتھ کام کیا؟ ج: انہوں نے پاکستان کے تقریباً ساٹھ گلوکاروں کے ساتھ گھڑا بجایا،ان کے فوت ہونے کے ساتھ گھڑا بجانے کا فن بھی ان کے ساتھ دفن ہوگیا۔ س: آپ کے والد صاحب کو فوت ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا؟ ج: جی میں سادہ سا دیہاتی بندہ ہوں اور اب خود بھی کافی ضعیف ہوگیا ہوں ،سالوں کا حساب مجھے آتا نہیں اس لیئے ٹھیک سے یاد نہیں میرے اندازے کے مطابق ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے تقریباً بیس سال بیت چکے ہیں۔
س: سُر اور راگ کتنے قسم کے ہوتے ہیں آپ نے کتنی راگیں سیکھیں؟ ج: بھیروی،درباری، پہاڑی، مال کوس، ایمن، بھیم، جوگ، بگیری،ہندوستانی بھیروی، سندھڑا، ٹھمری یہ کئی راگیں ہیں جو مختلف کیفیات کی عکاسی کرتی ہیں مجھے ان سب پر عبور ہے۔ س: بانسری کتنی زبانوں میں بجا سکتے ہیں؟ ج: مجھے سرائیکی،پنجابی،اردواور پشتو زبان پر عبور ہے اس لیئے ہر زبان میں بانسری بجا سکتا ہوں۔ س: بانسری بندہ شوق سے سیکھ جاتا ہے یا اس میں محنت کا عمل بھی داخل ہے؟ ج: بانسری بہت مشکل اور محنت کا کام ہے اس کو سیکھنے کیلئے کڑی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے یعنی شوق کے ساتھ محنت کا عنصر نمایاں ہے۔ س: اپنے شاگردوں کو کیا سکھایا؟ ج: میرے شاگرد مجھ سے جو کچھ بھی سیکھنے آتے ہیں میں کھلے دل سے ان کو سکھاتا ہوں اور ان کو مزید سیکھنے کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ میں عمر کے اس دور میں ہوں جہاں زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا اس لیئے میںنے ہمیشہ سے اپنے شاگردوں کو کھلے دل سب کچھ سکھایا اب یہ آگے ان پر منحصر ہے کہ وہ اس فن کو آگے کیسے پہنچاتے ہیں۔ س: بانسری کے پروگرام جو سرکاری سطح پر آپ نے سرانجام دئیے اور کئی سالوں تک اس فن کی خدمت کی تو اس کے اعتراف میں حکومتی سطح پر بھی آپ کونوازا گیا؟ ج: میں ایک غریب سا دیہاتی بندہ ہوں جس نے اپنی ساری زندگی صبر و شکر میں گزار دی مجھے پتہ نہیںکہ حکومتی سطح پر نوازنا کیسا ہوتا ہے ہاں بس کچھ پروگرامز میں مجھے تعریفی اسناد دی جاتی تھیں بس وہی خوبصورت یادیں ہیں میرے لیئے جو میری خوشی کا سامان ہیں۔
Ustad Ramzan
س: تعریفی اسناد اور سرٹیفیکٹ کس کس ادارے نے کب اور کس نے دی؟ ج:اب تو میری یاداشت میرا ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے ہاں اتنا یاد ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن پشاور کی طرف سے مجھے ایک سرٹیفکیٹ ملی، ٹاؤن ہال ڈیرہ میں مجھے ایک تعریفی سرٹیفیکٹ اس وقت کے وزیر خزانہ نے دی تھی اس کے علاوہ لائن پولیس میں مجھے ایس پی صاحب نے تعریفی سرٹفیکٹ سے نوازا تھا اور ایک سرٹیفکیٹ مجھے آرمی سنٹر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ملی تھی۔ س:کلاسیکل کیا ہے؟ ج: ایک اچھا فنکار وہی ہے جس کو کلاسیکل کی سمجھ آتی ہو، کلاسیکل موسیقی کی روح ہے کلاسیکل کا فنکار کہیں بھی مار نہیںکھا سکتا ۔ س:آپ کو کلاسیکل دھن پہ عبور حاصل ہے؟ ج: عبور کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن میں نے فوک دھن کے ساتھ کلاسیکل دھن پہ بہت محنت کرکے اس کو سیکھا اور بجایا بھی جسے لوگوں نے خوب پسند کیا۔ س: موسیقی کے راز و رموز میں بہت ساری سُریں ہیں ان میں سب سے زیادہ پرسُوز راگ کون سی ہے؟ ج: راگوں میں سب سے زیادہ اداس سُر ”مالکوس” ہے جو جس کی رگ رگ میں اداسی بھری ہے۔ س:سُروں میں سب سے میٹھی سُر کونسی ہے؟ ج:ویسے تو سبھی راگیں اچھی ہیں جو جس کیفیت میں ہو اسے وہی راگ اچھی لگے گی لیکن سب سے میٹھی راگ ”بھیروی ہے یہ خوشی کی راگ ہے۔ س:راگوں کی سردار کون سی راگ ہے؟ ج: مسکراتے ہوئے، بہت سارے بچھو جارہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ آپ کا سردار کون ساہے توبچھوؤں نے کہا کہ آپ جس کی دم پر بھی ہاتھ رکھیں گے وہی سردار ہوگا ایسے ہی سب راگیں سردار ہیں یہ آپ کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جو راگ آپ کی طبعیت کو راس آجائے وہی راگ آپ کے لیئے سردار ہے۔
س: بانسری ہاتھ میں آجائے تو کون سی دھن چھیڑنے کو دل کرتا ہے؟ ج: یہ تو اس وقت دل کی مرضی پہ منحصر ہے کہ دل اور کان کیا سننا پسند کرتے ہیں ویسے بعض اوقات جب ایسا ہوتا ہے تو سننے والے بھی موجود ہوتے ہیں تو ان کی خواہش کا احترام بھی کرنا ہوتا ہے اور جو سامع کا دل چاہے وہی پیش کرتا ہوں۔ س: زیادہ تر بانسری کون سی زبان میں بجانا اچھا لگتا ہے؟ ج: ہماری سرائیکی زبان بہت میٹھی ہے سرائیکی سے زیادہ میٹھی زبان کوئی نہیں اس لیئے سرائیکی کی دھنیں اور سرائیکی گیت بجانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
س: اپنے شاگردوں کے نام کوئی پیغام دیں گے؟ ج: بس اتنا کہوں گا کہ آپ جہاں بھی رہیں محنت،لگن اور شوق کو اپنا شعار بنا لیں شوق پیدا کرنے سے کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا اگر خوب لگ کر محنت کریں گے تو آپ کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی اور آپ ایک دن اپنی منزل کو پالیں گے۔
س: اپنے چاہنے والوں کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ ج: میں ایک عام سا دیہاتی بندہ ہوں جس نے ساری زندگی سادگی میں گزار دی اگر لوگ مجھ سے محبت رکھتے ہیں تو یہ ان کی محبت ہے ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا ان کی محبت ہے جو وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ س: شاگردوں کی تربیت کے لیئے کوئی باقاعدہ انتظام کیا ہوا ہے؟ ج: نہیں جناب میں ایک غریب آدمی ہوں ساری زندگی عاجزی و سادگی میں گزار دی اس لیئے میں نے کبھی کوئی باقاعدہ تربیت گاہ نہیں بنائی اور نہ ہی میری جیب یہ سب برداشت کرسکتی ہے اس کے باوجود بھی اللہ کی مہربانی سے میرے شاگرد بہت زیادہ تعداد میں ہیں ہم دیہاتی لوگ ہیں جب بھی میرے شاگرد مجھ سے بانسری کا سبق لینے آتے ہیں تو اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں بھی کسی بھی کونے میں بیٹھ کر میں ان کے علم کی تشنگی کا سامان کرتا ہوں اور انہیں بانسری سکھاتا ہوں۔پاکستان کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والے افراد جو بانسری کا شوق رکھتے ہیں اور جو سبق لینے آتے ہیں میرے دروازے ہر وقت ان کے لیئے کھلے ہیں۔
س: بانسری کا مستقبل کیاہوگا؟ ج: دیکھیں جی میں سمجھتا ہوں کہ جب تک اچھا سکھانے والے لوگ ہیں بانسری زندہ رہے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کسی کو بغیر کسی لالچ کے کسی چیز کا علم دیتے ہیں تو وہ ہمیشہ بڑھتا ہے جبکہ اگر کسی علم کو بیچا جائے یا اس کے سکھانے والوں کا شوق ہی ختم ہوجائے تو اس کے مستقبل کو ضرور خطرہ ہوسکتا ہے۔
س: ماشاء اللہ آپ کے بچے تو جوان ہوں گے؟ ج: جی الحمداللہ مجھے اللہ پاک نے دو بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا ہے اور سب کی شادیاں ہوگئی ہیں اس وقت میں دادا اور نانا بھی ہوں۔ س: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ ج: چار بہنیں اور ہم دو بھائی تھے ایک بھائی وفات پاچکا ہے اب صرف میں رہ گیا ہوں۔ س: اللہ آپ کو لمبی زندگی دے،آپ کا کون سا نمبر ہے اپنے بہن بھائیوں میں؟ ج: بہن بھائیوں میں میرا نمبر دوسرا نمبر تھا مجھ سے بڑا ایک بھائی تھا جو وفات پاگیا۔ س: کسی فلم یاڈرامے کیلئے بانسری کی دھن ریکارڈ کرائی؟ ج: فلم کے لیئے تو نہیں پی ٹی وی کے لیئے بہت سے پروگرام کرائے۔ س: آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟ ج: جی الحمداللہ میں بہت مطمئن ہوں، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دور افتادہ علاقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود دور دور سے لوگ مجھ سے بانسری کا سبق لینے اور مجھے سننے آتے ہیں جو سب کا سب اللہ پاک کا خصوصی کرم اور مجھ ناچیز کے لیئے اس کی طرف سے ہی دی گئی عزت ہے۔
س: آپ کی کامیابی اور شہرت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے جو دور دراز سے لوگ سفر کرکے آپ کو سننے اور آپ سے سیکھنے آتے ہیں؟ ج: محنت ،مشقت اور اساتذہ کی شفقت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے لیکن اس کے ماں کی دعائیں اور والد صاحب کی حوصلہ افزائی ساری زندگی شامل حال رہی۔ بہت بہت شکریہ جناب آپ کا اعتدال کو وقت دینے کے لیئے اس کے ساتھ ہی ہم نے ان سے اجازت لی۔
قارئین کرام بانسری کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ہزاروں سال ہزاروں سال کی تاریخ رکھتی ہے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس میں جدت آگئی ہے ۔دور حاضر میں جدید سے جدید تر آلات موسیقی نے بانسری کو بھی ایک سے بڑھ کر ایک رنگ دے دیا ہے اس کے ساتھ ہی فن موسیقی کے وہ ماہر جنہوں نے سالوں اپنی فنی خدما ت عوام کے لیئے وقف کیں تو وہ سادہ لوح لوگ اس چکاچوند سے پریشان ہو کر پردہ نشین ہوگئے اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ فن بانسری کی حالت اس وقت پاکستان میں مرغ بسمل کی سی ہے۔
جب کسی فن کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی جائے یہ نظر انداز کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ وہ ریگ پا ہو جاتا ہے اس سب میں قصور جہاں معاشرے میں بسنے والے افراد کا ہوتا ہے جو اہل فن کی کو اہمیت نہیں دیتے تو وہاں کی حکومتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہوتی ہیں جو ثقافت کو پروان چڑھانے والے ان سپوتوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیتی ہیں اور اس طرح کسی بھی معاشرے کے یہ ورثے اور اثاثے وقت کی دبیز تہہ میں دب کر ختم ہوجاتے ہیں،ایسا ہی کچھ رمضان استاد کے ساتھ ہوا،حالیہ دنوں جب خیبر پختونخواہ کلچرل ڈیپارنمنٹ کی طرف سے صوبہ بھر میں پانچ سے کے لگ بھگ اپنی زندگیوں میں فنی خدمات دینے والوں کو ان کی فنی خدمات کے صلے میں ایوارڈ سے نوازا گیا اور اعزازیہ بھی دیا گیا جو ہر ماہ ملتا رہے گا۔
Ustad Ramzan
سوچنے کی بات یہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے والی حکومت حقیقت میں ان فنکاروں کے لیئے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے یا محض فنڈ ہڑپ کرنے کا ایک راستہ تھا،ضلع ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ خیبر پختونخواہ کا دوسرا بڑا ضلع ہے لیکن پانچ سے فنکاروں میں سے صرف سولہ فنکاروں کو ڈیرہ سے منتخب کیا گیا جبکہ کئی افراد نظر اندازی کی بھینٹ چڑھ گئے،اتنے بڑے شہر کی چند چیدہ چیدہ شخصیات کو منتخب کرنا اور اکثریت کو نظرانداز کرنا بہت بڑی ناانصافی ہے اس نظراندازی کی لپیٹ میں رمضان استاد جیسے بزرگ استاد بھی آگئے جنہوں نے اپنے وقت میں نام پیدا کیا اور جن کیاایک دھن آج بھی سوسال کیلئے پاکستان ٹیلی ویژن کے پاس محفوظ ہے وہ کئی برس تک اس ملک اور قوم کے لیئے اپنی خدمات پیش کرتے رہے لیکن آج ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو کسی ایوارڈ سے نوازنے یا عمر کے اس دور میں جہاں وہ بزرگی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے لیئے اعزازیہ مقرر کیا جاتا وہاں ان کو نظر انداز کرنا رمضان استاد کے ساتھ صرف زیادتی نہیں بلکہ اہل فن کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
اہل فن لوگوں ہمیشہ اپنوں ہی کی بے اعتنائیوں کے ہاتھوں نظرانداز ہوتے رہے ہیں،کسی بھی معاشرے سے تعلق رکھنے والے اہل فن وہ لوگ ہوتے ہیں جو افراد کو کسی بھی کشیدہ صورتحال سے نکالنے میں ملکہ رکھتے ہیں اور پرامن رہنے کادرس دیتے ہیں ،فنکار چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہیں یہ معاشرے میں اپنے فنون کے ذریعے ایک نئی روح پھونکتے ہیں اس لیئے کسی بھی معاشرے میں ان کو نظرانداز کرنا اس معاشرے کی قوم ثقافت و تہذیب کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے،انصاف کی حکومت اگر واقعی انصاف کے فراہم کررہی ہے تو وہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں فنکاروں کا میرٹ بناتے ہوئے نظر ثانی ضرور کرے تاکہ رمضان استاد اور ان جیسے کئی متاثرہ شخصیات جن کا حق بنتا ہے کہ وہ حکومتی تحویل میں چلیں جائیں اور حکومت ان کی مالی اعانت کرے۔
پانچ سو افراد میں سے ضلع ڈیرہ کے صرف 16 فنکاروں کو ترجیح دینا زیادتی ہی نہیں بلکہ باعث تشویش بھی ہے جس کی وجہ سے رمضان استاد جیسے کئی سفید پوش لوگ حکومت کی نظر سے روپوش رہ گئے،اس لیئے صوبائی حکومت کوچاہیے کہ فی الفور اپنی بقاء کی جنگ لڑتے چاچارمضان اور ان جیسے دیگر افراد جو اپنی خودی میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گناہ تصور کرتے ہیں کی مالی اعانت کے ساتھ ان کے نام پر سرکاری ایکڈمیوں کا قیام بھی عمل میں لائے تاکہ ان کی فن سے استفادہ حاصل کیا جاسکے اور ان کی زندگیوں میں ہی ان کو وہ فخر حاصل ہوجائے جس کی آس میں یہ لوگ اپنی زندگی کی بازیاں ہار جاتے ہیں تب قومیں انکو لاحاصل خراجِ تحسین پیش کرنے ،یاد کرنے اور افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتیں۔