تحریر : فریحہ احمد حیات انسانی میں یوں تو کئی خواب اپنی آب و تاب کے ساتھ چشمِ نگاہ کا زیور بنتے ہیں,مگر کچھ خواب اپنی قوموں کی زندگی میں ایسے گرہ مایہ جواہرات سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں، جسکی بدولت وہ زمانے میں نمایاں شہریت کے حامل ہو جا تے ہیں۔ یہ خواب تاریخِ عالم میں سنہری حروف سے رقم کیے جاتے ہیں۔ ان کی تعبیر کے پسِ منظر میں انسانوں کی طویل کاوش کارفرما ہوتی ہے.ایسا ہی ایک قابل ستائش خواب ہمارے قائدین نے کئی سال پہلے دیکھا,تب پاکستان محض ایک خواب تھا۔ اس خواب کی پیش رفت میں 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں نے ایک قرارداد منظور کی جیسے بعدازں قرارداد پاکستان کا نام حاصل ہوا۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد کئی چیمگوئیاں ہوئیں.کچھ لوگوں کا اندیشہ تھا کہ “تجویز تو منظور ہو گئی مگر دیکھیں پاکستان کب بنتا ہے “یہاں تک کہ دہلی روانگی کے وقت کسی نے سوال کیا کہ “کیوں حضور! قرارداد تو منظور ہو گئی اب ہماری آزاد مملکت کب بنے گی ” جس پر قائداعظم نے مسکرا کر کہا کہ “یہ سب آپ کی کوشش پر منحصر ہے “پاکستان محض ایک خواب ہی تھا تب جسکی تعبیر مسلمانوں کے دل و دماغ میں گردش کرتی تھی. اس خواب کو منزلِ تعبیر تک لانے میں سات سال کا عرصہ لگ گیا۔
پاکستان کے قیام کا عمل فکری طور پر کئی مصائب کا شکار رہا, مگر چراغ سے چراغ جلتے رہے۔ آزادی کے متوالے قربان ہوتے رہے,لوگ آپس میں ملتے رہے, کارواں بنتا گیا. حریت و صداقت کا سفر جاری رہا.. اس مصمم بالشان خواب کی تعبیر ان سچے جزبوں کی قوت تھی جو یہ خواب دیکھنے والے ہی رکھ سکتے تھے۔ اگر خواب اور جزبے, صاف اور سچے ہوں تو خدا بھی ان سچے جزبوں کا ساتھ دیتا ہے۔ تب بھی ایک سچا جزبہ تھا جس نے ہمارے بزرگوں کا خواب سچ کر دیکھایا۔
Pakistan
آج اس خوابِ سعید کی یاد میں اپنے جزبوں کو پھر سے جگا دینے کی ضرورت ہے جس پر ہماری آئندہ آن والی نسلیں ہم پر فخر کر سکیں ویسے ہی جیسے ہم ان پر کرتے ہیں۔ جہاں اس تاریخ ساز خواب, جو حصول ِپاکستان کی وجہ کبیرہ بنا, کی یاد گار کا اصل مقصد ان تمام مسلمانوں کو خراجِ وفا پیش کرنا ہے وہاں من حثییت القوم اپنی سوچ, رویے اور کردار کا جائزہ لینا بھی ہے.آج ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ ہم اپنے قول و فعل میں تضاد کا شکار تو نہیں ؟ ہم کسی ایسے فعل کا ارتکاب تو نہیں کر رہے جس کی وجہ سے دوسروں کی حق تلفی ہو رہی ہو ؟ کوئی ایسا عمل تو نہیں کر رہے جس کی وجہ سے اپنے ملک کے قانون کی پامالی ہو رہی ہے۔
ہمارے درمیان اتحاد و محبت کی بجائے نفرتوں اور عداوتوں کی آبیاری کی جا رہی ہے؟ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو ہمیں “قرارداد پاکستان ” کی یاد منانے کا کوئی حق نہیں بلکہ ہم اس عظیم الشان خواب, اس نصب العین کا مزاق اڑا رہے ہیں جسکے حصول کی خاطر قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔
اگر ہم قرارداد پاکستان کی فی الحقیقت دل کی گہرائیوں سے یاد منانے کے خوگر ہیں تو ہم اپنے رویے اور کردار کو ایک مثالی مسلمان کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اپنی تمام صلاحیتں وقف کرنی ہونگی، اپنے جزبوں کو اپنے خوابوں کو پھر سے پر عزم بنانا ہو گا. تاکہ ہمارا ملک اس نصب العین پر قائم رہے جسکا خواب ہمارے قائدین نے دیکھا تھا. ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن لیکن تم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک پاکستان زندہ باد۔