تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا ازل سے ابد تک یہ قانوں فطرت ہے اور رے گا، جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد گرامی ہے ! ہر نفس نے موت کا زائقہ چکھنا ہے ،یہ دنیا چند روزہ امتحان ہے، اس چند روزہ زندگی میں ہر روز لاکھوں کے حساب سے انسان پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں کے حساب سے انسان اس کائنات کی رنگینوں کو چھوڑ کر اپنے حقیقی خالق مالک کے پاس چلے جاتے ہیں ، کچھ تو گمنام کی موت مر کر مٹی ہوجاتے ہیں ، چند ایک ہوتے ہیں جن کو دوست ، احباب، محلے دار کچھ دن رو دھو کر صبر کا جام پی لیتے ہیں ، تاریخ گواہ ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ وزیر نہ مشیر، نہ ولی نہ درویش ، نہ غوث نہ قطب ، نہ نبی نہ رسول ہوتے ہیں مگر دنیا ان کو بھولتی نہیں ان میں ایک نام ضلع گجرات کے سینئر صحافی جلیس الرحمٰن چیف ایڈیٹر روزنامہ جستجو کا جنکو ہم سے بچھڑے ہوئے آج 5 سال کا عرصہ گزر چکا ہے آپ 5 اگست 1958 کو پیدا ہوئے اور 31 مارچ 2011 کو ہم سے بچھڑ گئے،اللہ پاک اپنے پیارے محبوب نبی کریم غفور رحیم ۖ کے صدقے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے آمین۔
آپ عرصہ تقریباً 35 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک تھے اور عرصہ 35سال سے روزنامہ جستجو گجرات سے نکال رہے تھے، ہم سب جانتے ہیں کہ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں سب سے مشکل کام اور اہم ترین ذمہ داری غلطی سے پاک و درست، ٹھیک ایمان داری سے رپورٹ (خبر دینا) ہوتا ہے صحافتی ذمہ داریوں کے دوران کئی ایسے مقامات آتے ہیں۔ جہاں سچ لکھنا یا بولنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور یہی صحافی پیشہ کی شان اور عظمت ہے کہ صحافی اپنے تن من دھن کو قربان کرتے ہوئے اظہار کی قربانی نہ ہونے دے۔ صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا، جیل جانا، مقدمات قائم ہونا اور حملے بھی ہوتے ہیں۔ صحیح صحافی وہی ہے جو ان چیزوں سے خوف کے بغیر حق اور سچ کا ساتھ دے۔ صحافی کسی قوم اور معاشرے کی تعمیر و تخریب دونوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
Journalists
ایسا صحافی جو اپنے قلم سے سچائیوں کی تصویر کشی کرتا ہے اور معاشرے کے رستے ہوئے زخموں اور ناسوروں پر اپنے قلم کا نشتر چلاتا ہے۔ وہ معاشرتی بگاڑ اور فساد کے خلاف اپنے قلم کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ نہ صرف قوم کا سرمایہ بلکہ اس معاشرہ کے ضمیر کا فرض انجام دیتا ہے۔ ایسا صحافی جو معاشرے میں بدی کی قوتوں کا آلہ کار بنتا، اپنے قلم سے لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کی پشت پناہی کا کام اور سیاہ کاریوں کی حمایت کرتاہے۔ وہ نہ صرف صحافت کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بلکہ مجرموں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا اثر پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اس لحاظ سے باضمیر صحافی صحیح خطوط پر معاشرے کی تعمیر میں لازوال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے صحافت کے پیشہ کو پیغمبرانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔میری کم علمی اور کم عقلی جس نتیجہ پر پہنچی ہے وہ یہ کہ جلیس الرحمان ایک سیئنرصحافی اور مثبت صحافت کاایک ستارہ تھا۔
جلیس الرحمٰن گجرات پریس کلب میں بحثیت جنرل سیکرٹری اور نائب صدر کے فراہض سرانجام دے چکے ہیں ،مرحوم کی شریک حیات نے بتایا کہ ان کی شادی کو 18 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر ایک دن بھی ہماری لڑائی جھگڑا نہیں ہوا ۔ ماشااللہ جلیس الرحمان کے تین بیٹے ہیں جو طالبعلم ہیں ، مبین الرحمان ، منیب الرحمان اور معیزالرحمان ، کالجز اور یونیورسٹیوں کی فیسوں اورروز مرہ کے اخراجات کا بوجھ مسزجلیس کے کندھوں پر آن پڑا ہے، میں سلوٹ کرتا ہوں مسز جلیس الرحمان صاحبہ کو جنہوں نے گھریلوں زمہ داریوں کے علاوہ بچوں کا ماں اور باپ کا پیار بھی دیا اور عملی طور پر ثابت کیا کہ عورت کسی بھی شعبہ زندگی میں مرد سے کم نہیں۔
Journalism
مسز جلیس الرحمان نے بتایا کہ مرحوم جلیس الرحمان کے چند ایک دوستوں کا زکر نہ کروں کو بے انصافی ہوگئی، شعبہ صحافت میں منسلک سیئنر صحافی وقار ہنجرا چیف ایڈیٹر روزنامہ جسٹس گجرات، رانا اسلام روزنامہ نوٹ گجرات، سعد عبداللہ سینئر صحافی،عثمان طیب سیئنر صحافی،روحان شاہ ویز ملک روزنامہ تصویرِوطن گجرات، شعبہ تعلم سے وابسطہ سجاد بانٹ سابق ای ڈی او (ایجوکیشن ) گجرات، نزیر اینڈ کمپنی کے شیخ تنویر،سیئنر صحافی اجمل خان نیازی،حکیم عبدالرحمان قریشی جہلم ،ڈاکٹر مظہر اقبال مشر صدر پریس کلب جہلم اور مرحوم ڈاکٹر احسان الہی سابق امیر جماعت اسلامی گجرات،یہ وہ چند شخصیات ہیں جنہوں نے دامے درمے سخنے مدد کیمسز جلیس الرحمان نے کہا ہم دعا دیتے ہیں اے اللہ جنہوں نے ہماری مدد کی اللہ پاک ان کے لئے آسانیاں پیدامائے آمین۔
آخر میں ایک گزارش ہے کہ حکومت پاکستان کو بھی جلیس الرحمان جیسے سینئر صحافیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو 24 گھنٹے قلمی جہاد کرتے ہیں ،اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اور لواقین کو صبرِ جمیل کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کا کوئی غائبانہ انتظام فرمائے آمین۔