تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی مشہور کہاوت ہے کہ جب تن لاگے تب من جاگے جسکا مطلب یہ ہے کہ کسی کے دکھ درد اور تکلیف کا احساس صرف اسی وقت ہوتا ہے جب انسان خود اس دکھ اور تکلیف سے گذرتا ہے جیسے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا دکھ صرف انہی لوگوں کو پتا ہے جن مائوں کے لاڈلے ان کے سامنے ہی بھوک ،بیماری اور غربت کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے خالق حقیقی سے جا ملے کوئی بھی شخص اس وقت تک اُس دُکھ کو نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ اُس کا اپنا پیارا اُس کی آنکھوں کے سامنے ایسی تکلیف سے نہ گزرے تمام حکومتی ارکان اور عوام صرف ظاہری تسلی تو دیتے نظر آرہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو گاجس کو تھر کے باسیوں کے اندرونی درد کا احساس ہو وہاں پر موجود افسران کی کرپشن کے سکینڈل روز منظر عام پر آرہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت ،ہمدردی اور جذبہ ایمانی جسیے اوصاف حکمرانوں اور افسران کے دلوں سے ختم ہو کر اُنکی جگہ فرعونیت، دولت کی ہوس اورظُلم نے لے لی ہے۔
تھر کا علاقہ انسانیت کی تذلیل کی کوئی ایک مثال نہیں بلکہ ہمارے مُلک کے شہر،قصبے،دیہات ہر جگہ ہر روز ہزاروں لوگ طرح طرح کی اذیتوں کا شکار ہیںافسر شاہی،اقربا پروری،رشوت خوری،مہنگائی،بے روزگاری اور ظلم وجبر نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگی ہے وبائی امراض کے خلاف لڑنے کی دعویدار حکومت صرف اشتہار بازی اور سیمینار پر عوامی دولت لُٹا رہی ہے جبکہ عملی کام برائے نام ہے سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر زیادہ تر مخصوص لوگوں کو نوازا جا رہا ہے۔کیا عجیب طریقہ کار ہے کہ کسی سرکاری افسر کی کرپشن کے خلاف شکایت کرنے والے کو انکوائریاں بھُگتنے کی سزا دی جاتی ہے اور اُس کا کوئی حاصل وصول بھی نہیں ہوتااگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ یہ کہ کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے والا شخص آئندہ ایسی گستاخی کرنے سے باز آ جاتا ہے۔
تاریخی ضلع جھنگ میں ٹی ایم اے ایسا ادارہ ہے جو باقی اداروں سے کرپشن میں سبقت لے جانے میں دن رات کوشاں ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اُن کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ منظور نظر ٹھیکیداروں کو تعمیرات کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد ہی اُنکی بنائی ہوئی گلیاں و پارک بے دریغ استعمال کیے جانے والے ناقص میٹریل کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اس لوٹ مار میں ٹی ایم اے جھنگ کے انجینئرز بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔
Jhang
اس کے علاوہ ٹھیکوں کی بولی لگوانے کی بجائے بھاری کمیشن دینے والے ٹھیکیداران کوفل ریٹ پر ٹھیکے دے دیے جاتے ہیں اور ریاست کے پیسے کو مال مفت سمجھ کر اڑایا جا رہا ہے یہ محکمہ اتنا منافع بخش ہے کہ افسران کا یہاں سے کہیں اور جانے کو دل ہی نہیں کرتا جیسے کہ محمد اکرم سب انجینئر جس کا دوبار ٹرانسفر کے آڈر آنے کے باوجود ٹرانسفر نہ کیا گیا اعلی حکام اور عوام تک یہ بات پہنچنے پر کاغذی کاروائی کردی گئی پر ۔۔۔۔؟۔۔۔۔اسی طرح ملک طارق نامی افسر نے اپنی سروس میں کمال کردیا سروس مکمل ہونے میں صرف دوماہ پر دو ماہ قبل ہی میڈیکل پر ریٹائر منٹ لے لی جو کہ قانون کے خلاف ہے۔
لیکن یہاں پوچھنے والا کون ہے جس ادارے میں آفیسر 10,10دن اافس نہیں آئے گے وہاں ایسے کام ہوتے رہے گے پر اس حمام میں سب ننگے ہیں سب کرپشن کی لڑی سے جڑ کر ایک مضبوط یونین بن چکے ہیں ۔اس میں عام آدمی کو ایسی اذیت ملتی ہے کہ نہ پوچھیں۔۔گندگی کے ڈھیر،کھڑا گندا پانی ،ٹوٹی گلیاں،کھلے مین ہول ،بیماریاں پھیلاتے مچھر ۔۔یہ سب چیزیں عام آدمی کے حصے میں آتیں ہیں جبکہ دولت کے پجاری لوگ اپنی شاندارزندگی گزار رہے ہیں۔
خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے حقیقی معنوں میں عوام کے خادم تب کہلانے کے لائق ہیں جب وہ عوام کے دلی جذبات، احساسات،دُکھ اور تکلیف کو محسوس کر کے اُن کے دُکھوں کا مداوا کریں گے عوام کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں گے مظلوم کی مظلومیت کو سمجھیں گے ظالم کا احتساب کریں گے انصاف کو قائم کریں گے لیکن ایسا ممکن نہیں لگتا کیونکہ کہلوانے اور حقیقی معنوں میں بننے میں بڑا فرق ہے ،اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر راج کرے اور اُسکی اچھائیوں کا ذکر ایک مثال بن جائے۔اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔(آمین)۔