تحریر : علی عمران شاہین ”فضا لڑاکا طیاروں کی گھن گرج سے گونج رہی تھی اور زمین ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سے کانپ رہی تھی۔ بم اور میزائلوں کے دھماکوں سے کان پھٹے جاتے تھے۔ صحرا میں اڑتی دھول اور دھوئیں کا یہ منظر کسی جنگ کا نہیں بلکہ سعودی عرب میں ناردرن تھنڈر (رعدالشمال) کے نام سے کی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کے آخری دن کا تھا۔
ناردرن تھنڈر فوجی مشقوں میں مشرق وسطیٰ ‘ ایشیاء اور افریقہ کے 21 مسلمان ملکوں کی افواج نے حصہ لیا۔ یہ مشقیں سعودی عرب کے شمالی صحرائی علاقے میں 12دن جاری رہیں۔ان جنگی مشقوں کے اختتامی مرحلے میں پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف ‘پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ‘مصرکے فوجی صدرعبدالفتاح السیسی اور سوڈان کے صدرعمرالبشیر نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کے ساتھ شرکت کی۔سعودی حکام کے مطابق حفرالباطن کے شمال مشرقی شہراور عراق اور کویت کی سرحد کے قریب ہونے والی یہ سب سے اہم اور خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں ہیں۔مشقوں کے اختتامی دن 2گھنٹوں پہ محیط ایک فرضی فوجی کارروائی میں لڑاکا ہیلی کاپٹروں ‘جدید ترین جنگی طیاروں اور ٹینکوں نے حصہ لیا۔سعودی حکام نے ان مشقوں کو خطے کے اتحاد کی علامت قرار دیا۔
گزشتہ سال شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان کی تخت نشینی سے سلطنت کی پالیسیوں میں واضح تبدیلی آئی ہے اور سعودی عرب نے خطے کے امورمیں جارحانہ کردارادا کرناشروع کردیاہے۔ سعودی عرب ملک کے جنوب میں واقع ہمسایہ ملک یمن میں حوثی قبائل کے خلاف لڑنے والی فوج کی قیادت کر رہا ہے۔دوسری طرف شمال کی جانب شام میں اسد حکومت اور دولت اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی فضائی کاروائیوں میںامریکہ کے ساتھ شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس نے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف ترکی کے ساتھ مل کر زمینی کارروائی کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔
Northern Thunder Exercise
سعودی عرب میں ہونے والی دنیااور عالم اسلام کی سب سے بڑی جنگی مشقوں ”رعدالشمال”(شمال کی گرج) کے بارے میں یہ تبصرہ دنیامیں سب سے بڑا نشریاتی ادارہ کہلانے والے برطانیہ کے بی بی سی کا ہے۔ جو سارے مغربی میڈیا کی طرح بلکہ سب سے بڑھ کر ہر دوسرے چوتھے روز سعودی عرب کے خلاف اپناخبث باطن کھول کھول کر خوب سامنے لاتا رہتا ہے۔
مغربی میڈیاکی طرح اس برطانوی ادارے کے بھی مسلم دنیا کے 58 ممالک میں سے دوہی ملک بڑے ہدف ہیں۔ایک سعودی عرب تودوسرا پاکستان ،جن کے بارے میں گاہے گاہے لیکن تواترکے ساتھ ہمیشہ ہی منفی رپورٹنگ کی جاتی اورمسلسل خبریں وتجزیے نشرکیے جاتے ہیں۔گزشتہ چندماہ سے بی بی سی دنیابھرمیں سعودی عرب کے حوالے سے اس پراپیگنڈے میں مصروف ہے کہ تیل کی قیمت گرنے سے سعودی عرب کی معیشت انتہائی زوال پذیرہے اور ملک کامستقبل قریب ”انتہائی گھمبیر” اور حکومت کے ساتھ ساتھ عوام شدید پریشان دکھائی دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ(چندروز پہلے سعودی عرب نے ملک میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں26فیصد کمی کااعلان کیا لیکن اس کی خبربی بی سی کو دکھائی نہ دی)اس کے بعد اسی سعودی عرب نے مالدیپ کو فوجی اڈوں کی تعمیر کے لئے 70ملین ڈالر امداد دی ۔اس کے ساتھ ساتھ یمن میں بھی ایسی امداد جاری ہے۔فلسطینیوں کے لئے بھی تازہ امدادی پیکیج روانہ کیا گیا۔جبوتی میں فوجی اڈہ بنانے کے لئے بھی سعودی عرب نے اپنا نیا کردار پیش کیا جو اس سے قبل صرف چند عالمی طاقتوں کے پاس ہے۔
آج بھی دنیا بھر سے بے شمار لوگ سعودی عرب مین تلاش روزگار کے لئے پہنچ رہے ہیں لیکن دشمن ہیں کہ بس اپنی ہی ہانکے جا رہے ہیں۔انہی سارے حالات میں خادم حرمین شریفین زائرین حج و عمرہ کے لئے اپنی خدمات کا دائرہ کار ہر روز پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا رہے ہیں۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ یہی بی بی سی سعودی عرب کی قیادت اور اس کی سرزمین پرہونے والی ان جنگی مشقوں کی قوت اور سعودی عرب کے حالیہ جارحانہ کردار کو پہلی بار تسلیم کرنے پر مجبور نظرآیا ہے۔ آخر کیوں؟ معاملہ صاف اورسامنے کاہے کہ سعودی عرب نے یمن کی حالیہ جنگ میں کودنے سے پہلے اپنے پڑوسی ملک بحرین کی حکومت کی درخواست پر وہاں فوج داخل کرکے وہاں کی شرانگیز بغاوت کو انتہائی کامیابی سے فروکیاتھاجس کے بعدسعودی عرب کے دشمنوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی تھی کہ سعودی عرب کبھی خطے میں ایساکردار بھی ادا کرنے کے قابل ہو سکے گا کہ وہ دوسرے ملکوں کی حکومتوں کی دعوت پر وہاں داخل ہوکر کامیابی سے حکومت مخالف آپریشن مکمل کرنا شروع کر دے۔
دنیا کے ذہنوں پرابھی تک 1991ء کی کویت عراق جنگ کا دھواں ہی چھایاہواتھا جب عراق نے کویت پرچڑھائی کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیاتھا تو پڑوسی ممالک خصوصاً سعودی عرب’قطراور متحدہ عرب امارات وغیرہ کی دعوت پر امریکہ نے یہاں قدم رکھے تھے اور پھر امریکی اتحادی افواج نے کویت کو آزاد کروایا تھا۔ اس وقت سعودی عرب نے امریکی حکومت سے10سال کادفاعی معاہدہ کیاتھا کہ وہ یہاں رہ کر اس خطے یعنی خلیجی ممالک کی حفاظت کرے گا اور عرب ممالک اسے اس چوکیداری کے معاوضے کے طورپر باقاعدہ تنخواہ ادا کریں گے۔
سعودی عرب نے اس جنگ کے بعد اس موقع پر ایک اورکمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو جو فوجی اڈا مہیاکیا تھا وہ بحرین کی بغل میں واقع دہران کا ائیربیس تھا جو سارے ملک سے دور اور الگ تھلگ ایک چھوٹا ساجزیرہ نما علاقہ ہے۔
Saudi-led 20-Nation Military Exercise
اس سارے عرصہ میں سعودی عرب نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے ‘کرائے پر اپنادفاع جاری رکھنے یادفاع کے وقت دیگرممالک سے امید لگائے رکھنے کی بجائے اپنی عسکری قوت کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ اس وقت سعودی عرب کی مسلح افواج کی تعداد 50ہزار تھی لیکن…وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج اس سعودی عرب کی مسلح افواج ساڑھے 4 لاکھ تک پہنچ چکی ہیں جودنیامیں 13ویں نمبرپرہیں جبکہ اڑھائی لاکھ سے زائد فوجی ریزر و(اضافی فوج) کے طورپر موجودہیں۔ایک طرف سعودی عرب نے دنیا بھر سے جدید سے جدیداسلحہ اور دیگر سامان حرب وضرب خریدنا شروع کیا تووہ آج بھی دنیاکاسب سے بڑااسلحہ و ایمونیشن کاخریدارہے۔سعودی عرب اب یوکرائن سے مل کر جدید جنگی ٹرانسپورٹ جہاز بنانے کی تیاری میں ہے تو دوسری طرف ملک میں جدید جنگی گاڑیاں اور بکتر بندگاڑیاں بھی تیار کی جارہی ہیں۔ اس کے لیے ملکی سطح پر ”الموسسة العامة للصناعات الحربیہ” (ملٹری انڈسٹریز کارپوریشن)مدینہ الملک عبدالعزیزللعلوم والتقنیہ (کنگ عبدالعزیز سٹی فارسائنس اینڈ ٹیکنالوجی) KACST’ شرکہ عبداللہ الفارس للصناعات الثقلیہ(عبداللہ الفارس کمپنی فارہیوی انڈسٹریز)السلام للطائرات (السلام ائر کرافٹ کمپنی) جیسے عظیم الشان ادارے قائم کیے گئے جہاں سے اب ملکی دفاع کے لیے بڑے پیمانے پر مسلح افواج کے لیے سامان حرب وضرب تیار ہورہاہے تو وہیں دنیابھر سے جدید سے جدیداسلحہ اور جنگی ٹیکنالوجی کی خریداری بھی تسلسل سے جاری ہے۔
رعدالشمال نامی جنگی مشقوں سے چند ہفتے پہلے ہی شہزادہ محمدبن سلمان کی قیادت میں 34مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کااعلان ہوا تھااور پھراس اتحاد میں شامل جب21ممالک کی مسلح افواج کی مشترکہ جنگی مشقیں شروع ہوئیں تو ان میں سبھی ممالک سے آئے ساڑھے 3 لاکھ فوجیوں ’20ہزار ٹینکوں’ اڑھائی ہزار جنگی طیاروں ‘ 460 لڑاکا ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا۔
10مارچ کے دن امت مسلمہ کے لیے جرأت’ ہمت و اتحاد کی ایک نئی روشنی کاپیغام لے کرطلوع ہواجب سعودی عرب کے شمال میں واقع حفرالباطن کے صحرا میں 21 مسلم ممالک کے سربراہان ایک ساتھ جمع ہوئے اور ان سب کا استقبال شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود کیا۔اس کے اگلے ہی روز ان سب سربراہان مملکت نے ایک ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نمازجمعہ اداکی اور مسلم امہ کو دنیا میں اپنے دفاع کے لیے یکجان ہونے کی ایک نئی امیدوں بھری روشنی دکھائی۔ مشقوں کے اختتام پرسعودی حکومت خصوصاً شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ ہمیں نیٹوکی طرز پرمسلم دنیا کا عسکری اتحاد قائم کرنا چاہیے اور اس کے لیے پاکستان کو آگے آنا چاہیے۔ رعد الشمال” کے نام سے ہونے والی ان عظیم الشان جنگی مشقوں نے سعودی فرماں رو اں شاہ سلمان کا حوصلہ اس قدربڑھایاہے کہ وہ اب کھل کرکہہ رہے ہیں کہ ان کا ملک اب کسی بھی جنگ کاسامناکرنے کو تیار ہے۔
سچ تو یہی ہے کہ اگر مسلمانوں نے دنیا میں سرگرداں و سعادت مند ہو کر زندہ رہنا ہے تو انہیں اپنے دفاعی میدان میں جرأت و ہمت کے ساتھ اترنااور آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ذلت تو مل سکتی ہے’ عزت نہیں…!!
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)