تحریر: انجم صحرائی یہ تو میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ میرے سیاسی اور سماجی سفر کی ابتدا کوٹ سلطان سے ہی ہو ئی ۔کوٹ سلطان کے لوگوں نے مجھے بڑے پیار اور اعتماد سے نوازا ڈاکٹر شا ہنواز سر گانی ،ملک عبد الرشید منجو ٹھہ اور سردار خدا بخش خان دستی جیسے لوگوں نے مجھے کبھی ہم ہمتی کا شکار نہیں ہو نے دیا یہ لوگ اس دور میں علا قائی سطح پر انقلاب اور تبدیلی کی مو ثر آ واز تھے ان کے علاوہ میرے شہر اور گلی محلے کے وہ معصوم بچے جو اب یقینا جوانی کی دہلیز کے آخری سالوں میں ہوں گے جنہوں نے میری آواز کو پر اعتماد بنا نے میں بہت حصہ ڈالا ۔مجھے یاد ہے کہ ہم نے مشترکہ جدو جہد کرتے ہو ئے کوٹ سلطان کو سب تحصیل بنا ئے جا نے کے مطا لبہ کی بنیاد پر دستخظی مہم کا آ غاز کیا اور ہم نے اس مطا لبہ کی حما یت میں نہ صرف سینکڑوں شہریوں کے دستخطوں کے ساتھ کوٹ سلطان کو سب تحصیل کا درجہ دیئے جانے کے مطا لبہ کی تحریری درخواستیں پنجاب کے اعلی حکام تک ارسال کیں بلکہ اس وقت کے پرنٹ میڈ یا میں بھی یہ مطا لبہ بڑی شدو مد کے ساتھ اٹھا یا ۔ اس کے علاوہ میرے ہم عصر دوستوں کو یہ بھی ضرور یاد ہو گا کہ کوٹ سلطان میں انجن تا جران کے پہلے با ضا بطہ الیکشن بھی اسی دور میں ہو ئے تھے ریکارڈ کی درستگی کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ کوٹ سلطان میں پہلی انجمن تا جران سال 1981.82 میں قائم ہو ئی تھی جس کے صدر محمد اشرف تھے ۔ اس ز ما نے میں انجمن تاجران کے قیام کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ شہر میں ہو نے والے دو تین واقعات نے کوٹ سلطان کے شہریوں اور تاجروں کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت کا احساس دلایا ایک واقعہ تو یہ تھا شہر کی معروف شخصیت اسلام الدین شیخ جنہیں سا مو قصا ئی بھی کہا جاتا تھا ان کی گوشت کی پرانی دکان جنو بی بازار میں نثار دودھ والے کے ساتھ تھی ۔ انہوں نے اپنے کسی عزیز کو گوشت کا ایک پھٹہ صدر بازار میں کریم بخش بان والے کی دکان کے سامنے لگا دیا ۔مجھے وہ دن بڑی صراحت کے ساتھ یاد ہے جب تھا نہ پو لیس کے ایک اے ایس آئی چند پو لیس اہلکاران کے ساتھ بازار میں آئے اور پھٹہ پر مو جود اسلام الدین شیخ کو اپنے ساتھ تھا نے چلنے کو کہا ۔
Platform
شیخ حاحب بڑے سیانے اور جراء ت مند شخص تھے انہوں نے پو چھا کہ تمہارے پاس وارنٹ ہیں پو لیس پارٹی کے پاس وارنٹ نہیں تھے وارنٹ نہ ہو نے کے سبب شیخ صاحب نے پو لیس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس انکار پر تلخی بڑھتے بڑھتے ہاتھا پا ئی تک پہنچ گئی اور پو لیس کو ناکام و نا مراد واپس جانا پڑا ۔ پو لیس پارٹی جانے کے بعد شیخ صاحب شہر کے چند معززین کے ساتھ تھا نہ میں پہنچ گئے ۔تھا نیدار کوئی نیازی صاحب تھے خا سے غصے میں تھے وہاں بھی خا صی گرمی سردی ہو ئی لیکن شیخ صاحب نے قا نو نی لڑائی لڑی اور سرخرو ہو ئے اس واقعے سے شہریوں اور تاجروں میں خا صا عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا اس زما نے میں کو شش ہو ئی کہ کو ئی پلیٹ فارم بنایا جائے کچھ دن بات چلی بھی مگر عملی طورپر آگے نہ بڑھ سکی ۔
ایک دوسرے واقعہ میں یہ ہوا کہ شب رات کا دن تھا اور ایک نو بیا ہتا جوڑا پو لیس کے ہتھے لگ گیا ۔ جب پو لیس کے دو جوا ن مخبر کی خفیہ اطلاع پر دن دیہاڑے دیواریں پھا ندھ کر مکان میں داخل ہو ئے اور میاں بیوی کو رنگے ہا تھوں پکڑ لیا بے چارے سیدھے سادھے نو جوان جوڑے نے بہت واویلا کیا کہ ہم دو نوں میاں بیوی ہیں مگر قا نون تو اند ھا ہو تا ہے پو لیس کے گبھرو جوان دو نوں کو تھا نے لے آئے ۔ شہر کے لو گوں کو پتہ چلا تو بہت سے لوگ تھا نے میں آ گئے سب ان کی ضما نت دے رہے تھے لیکن نکا تھا نیدار بضد تھا کی نکاح نامہ دکھا ئو اور ملز موں کو لے جا ئو ۔گو بعد میں انکوائری ہو ئی اور ذمہ داران پو لیس اہلکاران کو سزا بھگتنا پڑی لیکن اس واقعے نے بھی لو گوں میں آ رگنا ئز ہو نے کا احساس پیدا کیا ۔
ایک تیسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے کہ ایک مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے بیگ صاحب ۔ پرائس کنٹرول اختیارات بھی تھے ان کے پاس، ایک دن انہوں نے جمن شاہ ،حافظ آ باد ، کھرل عظیم اور کوٹ سلطان کے بیسیوں دکانداروں کوچالان کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گرفتار ہو نے والے بہت سی تعداد دکا نوں اور ہو ٹلوں پر کام کرنے والے معصوم بچوں کی تھی ۔ مجسٹریٹ صاحب نے یہ کاروائی سہہ پہر میں کی تھی ۔ کاروائی کے دوران گرفتار ہو نے والوں کو کوٹ سلطان تھا نے لا یا گیا جہاں تھا نے کے سامنے بچوں کے والدین اور لو گوں کی اکثریت جمع ہو گئی جن کا مطا لبہ تھا کہ گرفتار کئے جانے والے معصوم نا بالغ بچوں کو رہا کیا جائے ۔ تھانے کے گیٹ پر جمع ہو نے والے لوگوں کے تیور دیکھ کر ایس ایچ او نے لیہ سے مزید فورس منگوالی ۔ پو لیس کے ڈی ایس پی بھی مو قع پر پہنچ گئے مذاکرات ہو ئے رات گئے فیصلہ ہوا کہ بچوں کو رہا کر دیا جائے ۔ اس واقعے نے بھی شہر یوں اور تاجروں کو ایک منظم عوامی فورم کی ضرورت کا احساس دلایا ۔ گو یہ ہو نے والے واقعے ایک دوسرے سے جڑے نہیں تھے لیکن وقفے وقفے سے ہو نے والی اسی طرح کے واقعات کا تسلسل انجمن تاجران کی تشکیل کا سبب بنا ۔ یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے کہ جس زمانے میں کوٹ سلطان میں پہلی انجمن تاجران قائم ہو ئی اس زما نے میں لیہ کے تاجر انجمن شہریان کے پلیٹ فارم سے زیادہ متحرک و فعال تھے لیہ میں انجمن شہریان کا پہلا با ضا بطہ الیکشن کوٹ سلطان کی انجمن تاجران کے بعد منعقد ہوا جس میں شیخ محبوب الہی صدر اور واحد بخش باروی جزل سیکریٹری منتخب ہو ئے تھے ۔اس کا تفصیلی ذکر آ گے آ ئے گا ۔
Election
کوٹ سلطان کی اس پہلی انجمن تاجران کے انتخابات میں بلا مقا بلہ منتخب ہو نے والے صدر محمد اشرف اور دیگر عہدیداران کی تقریب حلف برداری گورٹمنٹ ہائی اسکول کوٹ سلطان کے اسمبلی گرائونڈ میں منعقد ہو ئی تقریب کے مہمان اعزاز اس وقت کے ایڈ یشنل ڈپٹی کمشنر شیخ شمش الدین تھے جنہوں نے اس باوقار و پر وقار تقریب میں انجمن تاجران کے منتخب عہدیداران سے حلف لیا ۔ تقریب کے حوالہ سے جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اے ڈی سی جی کو تقریب میں مہمان اعزاز کے طور پر دعوت دی با ضا بطہ پروگرام طے ہو نے کے بعد حلف برداری تقریب کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی ، دعوتی کارڈ چھپوائے گئے مقررہ تاریخ کے مقررہ وقت شہر کے سماجی ، سیاسی شخصیات اور تاجروں کی ایک بڑی اکثریت تشریف لے آ ئی لیکن مہمان خصو صی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا اس زمانے میں مو با ئل سہو لت دستیاب نہیں تھی لیہ پیُٰ ٹی سی ایل نمبر ملانے کے لئے کال بک کرانا پڑتی تھی اور کال کا ملنا جو ئے شیر لا نے کے مترادف اور آ پریٹر بہادر کے اختیار میں ہو تا تھا جوں جوں وقت گذر رہا تھا مجھ سمیت سبھی منتظمین کی پریشا نی بڑ ھتی جا رہی تھی پی ٹی سی ایل کال بھی نہیں مل رہی تھی جب آ دھے گھنٹے سے زیادہ وقت گذر گیا تب مجھے یقین ہو گیا کہ کسی لچ تلا ہے میں نے دوستوں سے کہا کہ میں مہمان خصو صی کے لینے جا رہا ہوں آپ مجمع سنبھا لیں ۔ میں نے اپنے دوست سردار منظور خان مرانی جو فنکشن میں ش ریک ہو نے کے لئے لیہ سے آ ئے ہو ئے تھے کی کار لی اور لیہ روانہ ہو گیا ۔
ان دنوں اے ڈی سی جی ہائوس لیہ پبلک سکول کے سا منے ہواکرتا تھا میں نے دروازے پر جا کر ڈیو ٹی پر مو جود پو لیس والے کو چٹ دی میری چٹ ملتے ہی شیخ شمش الدین اے ڈی سی جی نے مجھے اندر بلا لیا وہ لان میں کسی مہمان کے ساتھ بیٹھے پان کھا نے میں مصروف تھے میں نے جاتے ہی ان سے گلہ کیا کہ صاحب آ پ یہاں بیٹھے ہیں اور وہاں اسکول گرائونڈ میں لوگوں کا ہجوم آپ کا منتظر ہے میری بات سن کر وہ بڑے حیران ہو ئے اور بو لے یار مجھے تو بتایا گیا ہے کہ پروگرام کینسل ہو گیا ہے میں نے کہا کہ نہیں پرو گرام تو کینسل نہیں ہوا اور تقریب اپنے مہمان اعزاز کی منتظر ہے یہ سنتے ہی شیخ صاحب نے اپنی چھڑی اٹھا ئی ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کو کہا اور چل پڑے جب ہم اسکول گیٹ پر پہنچے تب میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ واپس جا رہے تھے جو ہماری گاڑی دیکھ کر واپس آ گئے اور یوں یہ تقریب منعقد ہو ئی اور ہم سر خرو ہو ئے ۔ حلف برداری تقریب کے کامیاب انعقاد کے بعد اگلے روز میں جب اے ڈی سی جی کا شکریہ ادا کر نے ان کے آفس گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کس نے مس گا ئیڈ کیا تھا ان کی بات سن کر میں ہنس پڑا اور کہا کہ جناب مجھے علم تھا کہ دوستوں نے ہی یہ کر مفرمائی کی ہو گی اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مجھے حیرا نگی ہو تی چو نکہ جو خود نہیں کھیل سکتے وہ دوسروں کے کھیل بگاڑ کے اپنے ہو نے کا احساس دلا تے ہیں ۔ اور کھیل بگا ڑنا ہی ہمارے دوستوں کی خو بی ہے ۔ با قی اگلی قسط میں