لاہور (جیوڈیسک) پنجاب حکومت نے تحفظ نسواں بل پر مذہبی جماعتوں کے اعتراضات دور کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں حکومتی نمائندے اور علمائے کرام شامل ہوں گے۔ کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف سے مولانا فصل الرحمان کی سربراہی میں مذہبی رہنماؤں کے ایک وفد کی ملاقات میں کیا گیا۔ کمیٹی تحفظ نسواں بل کا تفصیلی جائزہ لے کر اس قانون میں ترامیم تجویز کرے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا کہ بل میں تبدیلی کے لیے مذہبی حلقوں کی رائے اور تجاویز کو بہت اہمیت دی جائے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہر مذہب اور اخلاقی نظام میں خواتین پر تشدد قابل تعزیر ہے۔ پنجاب حکومت نے اس سے پہلے بھی تحفظ نسواں بل پر مذہبی جماعتوں سے مشاورت کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ارکان شریک نہیں ہوئے تھے۔ اس کمیٹی نے بل سے متعلق چار تجاویز حکومت کو پیش کی تھیں جن کو حکومت نے قانون پر عمل درآمد کے لیے بننے والے قواعد و ضوابط میں شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم نئی کمیٹی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان بھی شریک ہوں گے۔ وزیراعلیٰ کے خصوصی مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کی ملاقات اور نئی کمیٹی کی تشکیل کا مقصد خاص طور پر جمیعت علمائے اسلام ف کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ تاکہ وہ تحفظ نسواں قانون پر اپنے اعتراضات حکومت کے سامنے رکھ سکیں اور شق وار دلیل کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ وہ کونسی شقوں کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
پنجاب حکومت ماضی میں یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ اس قانون میں کوئی غیر اسلامی شق نہیں رکھی گئی، اور یہ کہ مذہبی حلقوں کی زیادہ تنقید بے جا ہے۔ کیونکہ تنقید کرنے والے بہت سے رہنماؤں نے اس قانون کا بغور مطالعہ ہی نہیں کیا ہے۔ خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ دینے کے لیے فروری میں تحفظ نسواں قانون کی منظوری کی گئی جس کے بعد سے اس قانون کو مذہبی حلقوں کی جانب سے مسلسل آڑے ہاتھوں لیا جاتا رہا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کی مخالفت کی اور اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔