تحریر : انجینئر افتخار چودھری وائس آف امریکہ سے کال تھی کہہ رہے تھے تہلکہ اسکینڈل پر آپ کا فیڈ بیک لینا ہے سچ پوچھیں دل پھٹ اٹھا کہا بھائی کون سا تہلکہ کہاں کی کھلبلی یہاں تو سب کچھ نارمل ہے۔اسی طرح چوری جاری ہے ملاوٹ موجود ہے ہر شخص اپنی جگہ نواز شریف ہے زرداری ہے کوئی کسی کو کچھ کہہ نہیں رہا یہ خبر یہ تہلکہ ان معاشروں کے لئے ہو گا جہاں انسانیت اب بھی زندہ ہے۔ایک عمران خان دیوار سے ٹکریں کب تک مارے گا اسے بھی لوگ گھیر رہے ہیں جو کہہ رہے ہیں جیسے تیسے حکومت حاصل کر لیں بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا گویا پہلے چور دروازے سے اندر آئو اور بعد میں انقلاب لے آنا یہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں خوف خدا نہیں ہوتا۔اور ٹھیک ٹھاک بندے کو کرپٹ بنانے کے ماہر یہ لوگ آنکھوں میں دھول جھونک رہنے کے لئے زندہ ہیں۔
جیسے میں نے کہا کہ تہلکہ وہاں مچتا ہے جہاں معاشروں میں ایمان داری بنیادی پیمانوں میں شامل ہو اور ویسے تو یہ لوٹ مار کی تہلکہ خیز خبریں تو عمران خان کئی دہائیوں سے دے رہے ہیں۔حرام خوری لوٹ مار چوربازاری ذخیری اندازی کی بیاد پر کھڑے معاشرے میں حکمران خاندانوں کے بیرون ملک اثاثوں کی خبریں آنے سے اس جوہڑ میں کوئی انقلاب نہیں آیا کرتا میں وہ دانشور نہیں ہوں جس کی کڑوی کسیلی باتیں میری اس تحریر جیسی ہوتی ہیں جس شخص نے ساری عمر حلال کمائی کھائی ہو کوئی غلطی کی بھی ہو تو اس پر خدا سے گڑ غرا کر حرم پاک کے غلاف کے ساتھ چمٹ کر معافی مانگی ہو اس کے شور شرابے اس کے واویلے کو فیصل آبادی دانشور کا نوحہ نہ سمجھیں۔
ایک زمانہ تھا ہم چھوٹے تھے ایوبی دور تھا گجرانوالہ شہر میں رہا کرتے تھے معاشرے میں حرام کھانے والوں کے مخصوص نام ہوا کرتے تھے لوگ انہیں بلیکئے کے نام سے یاد کیا کرتے تھے ۔یہ معاشرے کی وہ علامت تھی جو حرام و حلال میں تمیز کیا کرتی تھی۔آج دیکھ لیں خاندانوں میں ناجئز اور غلط کاموں سے آمدنی حاصل کرنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
Hussain Nawaz
عزیزی حسین نواز ،بیٹیوں جیسی مریم صفدر کے نام اس گند میں آنے پر دکھ اس لیئے نہیں ہوا کہ مجھے علم تھا کہ اس نمک منڈی میں یہ بھی نمک ہو چکے ہیں۔ایک بار سرور پیلیس میں ایک مزدور دیہاڑی دار کو لایا گیا شام کے وقت مزدور سے کوئی اختلاف پیدا ہو گیا تو اس نے گڑ گڑ اکر بد دعا دی کہ آپ لوگوں کو در بدر کیا گیا آپ پھر بھی نہیں سمجھے میاں صاحب کے علم میں بات لائی گئی انہوں نے اس مزدور کو بلایا دلاسہ دیا اور معافی مانگ کر اسے زیادہ مزدوری دے کر رخصت کیا۔،یں میاں نواز شریف کی پارٹی کا سخت مخلاف ہوں میں نے ان کے ساتھ تھوڑا عرصہ گزارا ہے مجھے علم ہے کہ وہ لوگوں سے کس قدر پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔وہ دوستوں کا ایک مجمع لگایا کرتے تھے جنہیں میں دوست کم اور مصاحب سمجھتا ہوں
ہنی البیلا کے والد حاجی اختر البیلا میرے دوستوں میں تھے مرحوم مجھے اس میز کی خبریں بتایا کر تے تھے جس پر لطیفہ گوئی زیادہ اور دیگر باتیں کم ہوا کرتی تھیں۔میرا یہ بھی جی نہیں چاہتا کہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھائوں جس سے انسان خود بونا بن جائے۔لیکن یہاں اس واقعے کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سیاست میں پیسوں کا عمل دخل،معاشرے کے بہت سے کرداروں کو گندہ کر چکا ہے۔اس سے میں تو کوئی ناک نہیں کہ لفافہ جرنلزم کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا جس میں میاں نواز شریف صاحب نے نام پایا۔
تہلکہ کے نام پر آنے والی خبریں جیسا کے میں نے پہلے ذکر کیا ہے اب اس قوم کو نہیں چونکائیں گی۔بھارت پاکستان کا وہ واحد دشمن ہے جس نے پاکستان کے قیام کو پہلے دن سے نہیں تسلیم کیا اسے گئو ماتا کہ تقسیم کا نام دیا گیا بندے ماترم کے گیت زبردستی اسکولوں میں طلباء پر مسلط کئے گئے۔آج کل جو ہو رہا ہے وہ ستر سال پہلے بھی ہوا۔لیکن بدقسمتی دیکھئے جس بات پر قوم میں تشویش اور تہلکہ مچنا چاہئے تھا وہ تھا ایک بھارتی غدار کی گرفتاری پر۔قوم تو کھلبلی کا شکار ہوئی مگر ہماری حکومت کے وہ وزیر جنہیں چوہوں کی گرفتاری پر تو واویلا مچانا پڑا وہ کل بھوشن یادو کے واقعے کو بھول گئے۔
Zarb e Azb
ویسے ایک اور بات جس نے نون لیگیوں کی صفوں میں تہلکہ مچا رکھا ہے وہ ہے آپریشن ضرب عضب کا لاہور میں داخلہ۔پاکستان کے حکومت مخالف حلقے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ آپریشن پنجاب میں بھی کیا جائے لیکن پتہ نہیں کیا مصلحت تھی کہ تقریبا چھ ماہ کی دیر لگا دی گئی۔اب نون لیگیوں کو احساس ہوا کہ آپریشن اسے کہتے ہیں ۔عوام تو منتظر ہے کہ سانحہ لاہور کے قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچیں لیکن لگتا ایسے ہے کہ حکومت کے جانے کے بعد پھندے کام میں آئیں گے۔آج ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ہے اگر دیکھا جائے تو بھٹو پر جو الزامات اس کے دور حکومت میں تھے ان کا بدلہ اقتتدار میں باہر آنے کے بعد لیا گیا۔لہذہ کسی بھی کام میں عجلت کا مطالبہ درست نہیں ہے۔
پانامہ لیکس نے ایک نیا کٹا تو کھول دیا ہے لیکن اس سے ہو گا کیا وہ آنے والا وقت بتائے گا۔کوئی اس غبارے سے بھی ہوا نکال دے گا۔ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ کل ہی میرا بیٹا کے پی کے میں اپنے گائوں سے واپس آیا ہے وہاں کی ویلیج کونسل کے دفاتر کے لئے شاندار فرنیچر کمپیوٹر وغیرہ پہنچ رہے ہیں۔اب ان کونسلرز حضرات کا کام ہے کہ وہ ان دفاتر کو عوام کی خدمت کے لئے استعمال کرتے ہیں یاپھر ان لوازمات مکتبیہ کا تیا پانچہ ہوتا ہے۔ویسے مجھے پورا یقین ہے کہ حکومت کے پی کے عوام کی خون پسینے کی کمائی کوضائع نہیں ہونے دے گی۔
کے پی حکومت کو شروع کے دو سال تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کیا کر رہی ہے لیکن جب اس کے اثرات پٹواری محکمہ دیگر محکموں کی بہتری خاص طور پر پولیس کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھی جانے کے بعد لوگوں کا اس حکومت پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ رہی بات اس نئے ڈاکے اور قومی اموال کی خرد برد کی اس پاکستانی قوم کو اس سے کوئی غرض نہیں نیلی پیلی ٹرینیں اونچے نیچے پل سڑکیں ہونی چاہئیں ایسی میٹرو جس کا میں تو کرایہ ٢٠ روپے دوں اور باقی اپنے پوتے کے لئے چھوڑ دوں وہ مجھے منظور ہے مجھے اس سے کیا سب ہی تو لوٹ رہے ہیں۔