تحریر: شفقت اللہ دی بینک آف انگلینڈ کے گورنر الیگزینڈر نے 1867ء میں کہا تھا کہ اگر مجھے کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار دے دیا جائے تو میں نہیں جانتا کہ قانون بنانے والا کون ہے اور قانون کیا ہے۔حا ل ہی میں پاناما لیکس کی رپورٹس اور انکشافات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا کے رکھ دیا ہے ایک ملک کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے کسی میں تحقیقات زور شور سے جاری ہیں لیکن پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں یہ انکشافات کوئی نئے نہیں ہیں ۔عرصہ دراز سے یہ باتیں ہوتیں رہیں ہیں اور ہر باشعور شخص یہ جانتا ہے کہ عوامی خدمت کی خاطر کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرنے والا کوئی نیک آدمی پیدا ہی نہیں ہوا۔
سیاست کو اپنانے کے مختلف لوگوں کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں کوئی اپنے کالے دھندوں کی حفاظت کیلئے سیاست میں آتا ہے تو کوئی ایک گنا کا گیارہ گنا بنانے کیلئے سر گرم ہے ،کوئی اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے حکومتی مراعات کی خاطر سیاسی میدان میں اترا ہے تو کوئی قبضہ مافیا کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔جھوٹے وعدے،جھوٹے خطابات قوم کو گمراہ کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں ۔کوئی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ انہوں نے جو عوام سے وعدے کئے ہیں وہ من و عن پورے کیئے یا پوری ایمانداری سے انہیں پوراکرنے کی کوشش بھی کی ۔ایک مداری والے بندر کی طرح عوام کو نچایا جاتا ہے ،لڑایا جاتا ہے ،مروایا جاتا ہے ،غرض یہ کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی بھلائی کی بجائے یہ سب انجمن افزائش اولاد کی ترقی اور بہتری پر زور دیتے ہیں ۔پاناما لیکس نے پاکستان میں کوئی ہلچل نہیں مچائی کیونکہ یہاں تو بیس ہزار روپے تنخواہ لینے والا سرکاری ملازم بھی لگثرری کاروں میں گھومتا ہے۔
Pakistan
اگر یہاں کے سیاستدانوں یا انکی اولادوں نے اربوں کے اثاثے بنائے ہیں تو یہ انکی نا اہلی ہے کہ اتنے کم اثاثے بنائے !! پاکستان تو کرپٹ لوگوں کیلئے وہ جنت ہے جہاں کوئی پوچھ گچھ نہیں کتنے کمیشن بنے کتنے عدالتوں میں کیسز دائر ہوئے انکا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔بم دھماکوں پر کمیشن ،لوگوں کے سرعام قتل پر کمیشن غرض یہ کہ ہر وہ معاملہ جس پر سیاستدانوں کی ساکھ خراب ہو رہی ہو اس پر کمیشن بنا دی جاتی ہے کیونکہ ان کمیشنز سے کبھی کوئی جواب ہی نہیں آنا ہوتا! جب آج تک کرپشن کے جرم میں کوئی ڈی سی ہی نہیں گرفتار ہو سکا تو سیاستدان تو بہت دور کی بات ہیں !! میڈیا پر روز روز کے اس تماشے نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے مایوسی گناہ ہے ہر آدمی ڈپریشن کا شکار ہے لیکن پاکستان کے موجودہ سسٹم نے عوام کو مایوسی کے اس گناہ کبیرہ میں ڈال رکھا ہے ۔پاک فوج کی طرف دیکھ کر کچھ حوصلہ رہتا ہے لیکن اب اس پر عوام کا اعتماد کمزور ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
ابھی تک پاکستان کو مقروض کر کے دیوالیہ کرنے کی ہر حد پار کی جا چکی ہے وزیر اعظم بیان دیتے ہیں کہ انہیں کئی مرتبہ کاروبار میں نقصان ہوا لیکن اسکے با وجود وہ آج بھی ہر طرح سے کلئیر اور بنک ڈیفالٹر بھی نہیں ہیں ۔انکے اپنے کاروبار تو دن میں لاکھ اور رات میں دس لاکھ کما لیتے ہیں جبکہ ان کے زیر اثر حکومتی ادارے دن میں لاکھ اور رات میں دس لاکھ کا گھاٹا کھا تے ہیں۔وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کاروباری زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے گھاٹے کھائے اور ظاہر ہے کہ ان کا ازالہ کرنے کیلئے پھر بینکوں سے قرض بھی لیا ہوگا؟اور حسین نواز بھی بتاتے ہیں کہ جب وہ ملک سے باہر گئے تو انکے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا اور انہیں وہاں لوگوں نے پیسہ ادھار دیا جس سے انہوں نے کاروبار شروع کیا اور اتنا منافع ہوا کہ آنے والے چارسال میں انہوں نے اپنا سارا بلینز روپے کا قرض بھی اتار لیا اور کئی کروڑوں روپے بھی کما لئے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ شریف خاندان پوری دنیا میں بزنس کے اعتبار سے ایک اہمیت کا حامل ہے اسکے با وجود حسین نواز کی جیبیں خالی کیوں تھیں ؟اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی قرضوں کی قسط ادا کرنے کیلئے پھر سے قرضہ لینا پڑتا ہے لیکن شریف خاندان پر کوئی بینک ڈیفالٹ کا کیس یا الزام نہیں ہے؟۔
Disclosure
یہ کیسی منطق ہے کہ خود کو تو ایک روپے کا بھی نقصان نہیں ہونے دیتے اور ریاستی ادارے جو انکے زیر سایہ کام کر رہے ہیں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں ؟؟؟یہ سب عوام کو شعبدہ بازی دکھا کر بیوقوف بناتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں لیکن کوئی اس حق میں نہیں کہ کوئی الزامات کو ثابت بھی کرے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں ۔کہاں گیا صولت مرزا کا بیان ؟ کہاں گئے عزیر بلوچ کے الزامات ؟ذوالفقار مرزا کے سنسی خیز قرآن کے سائے میں انکشافات؟مصطفیٰ کمال کی دھماکے دار انٹری ؟کہاں گئی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر کی رپورٹ؟ کہاں گیا حج کرپشن سکینڈل ؟اوگرا سکینڈل؟ ایفیڈرین کیس ؟نندی پور پاور پراجیکٹ؟ روز خبر ملتی ہے کہ نیب یا ایف آئی اے نے فلاں کیس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں فلاں ادارے کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے فلاں کو پکڑ لیا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن آج تک یہ خبر نہیں ملی کہ فلاں کو سزا ہوگئی ۔پاناما لیکس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا یا ہے اور کئی بادشاہوں ،بیوروکریٹس، اداکاروں ،بزنس مین بھی اس کی زد میں آ کر تذ بذب کا شکار ہیں ۔
آف شور کمپنیوں میں ان کے پیسوں کی موجودگی انکے لئے وبال جان بن گیا ہے لیکن پاکستان میں آف شور کمپنی میں پیسے رکھنا اور ٹیکس چوری کرنا کوئی غیر قانونی نہیں ہے بلکہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کیلئے پوری مشینری اور میڈیا نے پورے دو دن لگائے ہیں لیکن آخر میں پھر عوام کو کہ دیا گیا ہے کہ کمیشن میں الزامات کو ثابت کریں ہمارے پاس ان فضولیات کا وقت نہیں ہے اگر یہ فضول ہے اور قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو انڈیا میں اور دوسرے ممالک میں اسکی تحقیقات کیوں کروائی جا رہی ہیں ؟۔
آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ کیوں دے دیا ہے؟پلی بارگیننگ عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟؟کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کو کروڑوں لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ غریب کو ایک قسط بھی معاف نہیں کی جاتی اسکی مثال آپ کے سامنے ہے کہ ییلو کیب اور ٹیکسی سکیم میں کسی کو ایک روپیہ بھی معاف نہیں کیا گیا۔کچھ بھی ہو جائے یہاں کچھ بدلتا دکھائی نہیں دیتا جب تک عام آدمی کی سوچ نہیں بدلتی تب تک لٹیرے اور ظالم حاکم ان پر مسلط ہوتے رہیں گے اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نوٹ:۔ یہ تحریر میری ملکیت ہے۔ کوئی بھی اسے چرانے کی کوشش کرے گا تو میں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔۔