تحریر : محمد ارشد قریشی مسلمانوں کی شہادتوں کا سلسلہ بدر کے میدان اور سرزمین کربلا سے چلا تھا وہ آج تک جاری ہے کہیں دین اسلام کی حفاظت کی خاطر کہیں وطن کے دفاع میں شہادتیں ہوئیں تو کہیں وطن کی حفاظت پر مامور جوان کسی قدرتی حادثے میں شہید ہوجاتے ہیں ایک ایسا ہی دلخراش واقع 07 اپریل 2012 کی صبح 04 بجے سیاچن گیاری سیکٹر میں پیش آیا جس میں برف کے گرنے والے تودے کے نیچے دب کر پاک فوج کے جوانوں سمیت 140 افراد شہید ہوگئے تھے اور کئی دن کی جدوجہد کے بعد ان شہداء کے جسد خاکی کو برف کے تودے کے نیچے سے نکالا گیا تھا۔
وطن عزیز میں ہونے والا اس طرح کا ہر واقع میرے ذہن میں تقش رہتا ہے اور شائید میری طرح بہت سے لوگوں کو بھی ایسے واقعات یاد رہتے ہوں ہاں جن کے پیارے اس واقع میں شہید ہوئے انھیں تو یہ سب آج بھی اتنی شدت سے یاد ہوگا جتنا 07 اپریل 2012 کی صبح تھا ۔ جیسا کہ ننھی مریم تنویر کو یاد ہے جن کے عظیم والد لیفٹننٹ کرنل تنویر الحسن گیاری سیکٹر میں نمبر چھ لائٹ انفنٹری بٹالین کی قیادت کرتے ہوئے 140 جانبازوں کے ساتھ سات اپریل دو ہزار بارہ کو اس حادثے میں شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔ مریم تنویر اپنے عظیم والد اور حادثے میں شہید ہونے والوں کو کچھ یوں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔
ہم سردہوا کے باسی ہیں ہم شہید بھی ہیں ، غازی بھی ہیں ہم چھوڑ گئے ، دم توڑ گئے ہم برف کی چادر اوڑھ گئے ہم بیٹے ،باپ اور بھائی بھی منا، انکل ، ماہی بھی ہم کرنل ، کیپٹن ، میجر بھی حوالدار، نائک، سپاہی بھی بابا کی آنکھ کے تارے بھی ہم ماں کے راج دلارے بھی جب برف سے اٹھائے جائیں گے ہم جلد ہی ملنے آئیں گے
Gayari Sector
پاکستان فوج کے مطابق سیاچن کے قریب برفانی تودے تلے دبنے والوں میں فوجی اہلکاروں سمیت 140 افراد شامل تھے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق اس برفانی تودے کے نیچے دب جانے والوں میں سات افسران کے علاوہ ایک سو سترہ فوجی اہلکار اور اس کے علاو سولہ عام شہری شامل تھےاس برفانی تودے کے نیچے دب جانے والے افراد کے ناموں کی فہرست بھی جاری کی گئی تھی جن کے جسد خاکی کی تلاش مہینوں تک جاری تھی کیونکہ خراب موسم تمام امدادی کاروائیوں کو بار بار روکنے پر مجبور کرتا تھا اور کئی دفعہ تو یہ کاروائی کئی دن تک معطل کرنی پڑتی تھی ۔
اطلاعات کے مطابق سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برف کے نیچے دب جانے والے فوجیوں میں سے اکثریت کا تعلق سکردو کی سب ڈویژن شگر سے تھا اور ان سب کا تعلق ناردرن لائٹ انفنٹری چھ سے تھا ۔ اس علاقے میں دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو بھی واقع ہے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر امدادی کارروائیاں انتہائی مشکل کام تھا عسکری ذرائع کے مطابق بٹالین ہیڈکوارٹر پر برفانی تودے کی تہہ 80فٹ بلند تھی اور خطرناک موسم کے باوجود پاک فوج اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائی ہوئی تھی اور پوری قوم ان جوانوں کی سلامتی کے لیئے دعاگو تھی ۔
گیاری سیکٹر سیاچین کا ایک محاذ ہے جہاں 1984 کے موسم بہار میں بھارتی فوج نے جارحیت کر کے قبضہ جما لیا تھا۔پاک فوج ہر سال کی طرح اس بار بھی برفباری کے طوفانی موسم میں نیچے اتر آئی تھی اور بھارت نے اس خلا کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ 2012 میں گیاری کا سانحہ رونما ہوا تو میاں نواز شریف نےفرمایا تھا کہ اس بلند و بالا مقام پر فوجیں بٹھانے کی کیا ضرورت ہے، پاکستان کو اپنی فوج یک طرفہ طور پر واپس بلا لینی چاہئے، اس سے قبل کہ حکومت یا فوج کی طرف سے کوئی رد عمل آتا ، بھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان اپنی فوج ہٹا بھی لے تو بھارت وہیں موجود رہے گا۔ زندہ قومیں کبھی اپنے شہیدوں کو نہیں بھولتیں جنھوں نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے اس مملکت خداداد کے لیئے پیش کیئے ہمیں انہیں یاد رکھنا چاہیے یہ وہی لوگ ہیں جو سخت سرد اور برفانی علاقوں میں بھی اپنا گرم لہو بہا کر اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔