تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری معاشرے میں اجتماعی انتشار مقام عروج پر ہے کہ ایک گھر میں ہی افتراق واختلاف واضح نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ والد کا بچوں کیساتھ اور بچوں کا اپنی ماں کے ساتھ بے رخی جیسے رویوں کے مشاہدہ کا موقع گاہے بگاہے ملتا ہے۔ اس طرح کے تعلق پر کف افسوس نہ کیا جائے تو کیا کہا جائے۔ خاندان و گھر کے اس طرح کے جھگڑوں اور اختلافات کی وجہ سے سرکشی و طغیانی کا عنصر جنم لیتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ خاندان کے افراد ایک دوسرے پر عائد ذمہ داری و فرائض سے پہلو تہی کر بیٹھتے ہیں۔ گھروں میں پیش آنے والی متعدد مشکلات میں سے ایک پریشان کن امر اور معاشرتی برائی یہ ہے کہ والدین اپنے بد اخلاق و بدکردار بیٹے کے لئے نیک سیرت و صورت رشتے کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے لڑکے کے گھر والے ایسی لڑکی کے رشتے کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ نیک سیرت اورخوب صورت ہونے کے ساتھ حوصلہ مند و دھیمے مزاج کی ہوتا کہ ان کے بیٹے کی دیکھ بھال درست انداز میں کرسکے۔مگر امر حیرت یہ ہے کہ وہ اپنے اس لڑکے کی برائیوں اور بداخلاقی کی طرف ملتفت نہیں ہوتے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے بیٹے کی وجہ سے اس پچی کی مکمل زندگی مثل جہنم ہوجائے گی۔ وہ نوجوان سست وکاہل اور لہو ولعب کی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتا ہے جس کا بدیہی نتیجہ گھریلوں مشکلات و پریشانیوں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
دوسری طرف لڑکی کے والدین اس رشتہ پراس لئے راضی ہوجاتے ہیں کہ وہ لڑکا اونچے ومال دار گھرانے کا ہے۔ بچی اپنی دینی و اخلاقی زندگی کی پابندی سے حفاظت کرتی ہے نظر آتی ہے۔۔۔ جبکہ لڑکا لہو و لعب کی مشاغل کی وجہ سے بیوی کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آتا ہے اوراس کا احترام بھی نہیں کرتا۔ اس نے اچھے گھر کی بچی کا رشتہ اس لیے چنا کہ لڑکی پاکیزہ سیرت کی ہو اور صفائی و ستھرائی کو پسند کرتی ہو، دوسری جانب وہ خود ظاہری صفائی و ستھرائی کا تو اہتمام کرتا ہے مگر داخلی طور پر اس کے قلب و جگرمیں گندگی کا ڈھیر جما ہوا ہے۔شریعت نے والدین کو تعلیم و ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم وتربیت کا بہتر انتظام کریں اور اگر وہ بری عادات وحرکات کا مرتکب ہو جائے تو اس کومسلسل نصیحت کرتے رہیں یہاں تک کے باز آجائے غلط سرگرمیوں سے اگر وہ درست نہ ہو تواس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔
bad woman for bad men
یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے معاشرے و سماج کو بہترو اچھی شکل و صورت میں ڈھالنے کے لئے قاعدہ مقرر کر دیا ہے کہ”خبیث عورتوں کے لئے خبیث مرد اور خبیث مردوں کے لئے خبیث عورتیں ، پاکیزہ عورتوں کے لئے پاکیزہ مرد اور پاکیزہ مردوں کے لئے پاکیزہ عورتیں اور جو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں وہ اس سے بری و آزاد ہیں”(سورة النور) گویا قرآن پاک ہمیں تعلیم دے رہا ہے کہ برا آدمی بری عورت سے ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہو اور نیک فطرت دوشیزہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ پاک طینت اور اچھے اخلاق کے حامل لڑکے ہی سے شادی کرے۔لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ صرف کسی کو صوم صلاة کا پابند دیکھ کر فیصلہ نہ کریں کہ وہ اچھا لڑکا ہے بلکہ ان کو چاہیے کہ اس کی روزمرہ کی زندگی کا باریک بینی سے جائزہ لیں اس کی عادات و اطوار اور اس کی طبیعت و فطرت، اس کی مانت و دیانت اور سچائی کے ساتھ ساتھ اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے طریقہ معاملہ سبھی کا جائزہ لیں تاکہ وہ لڑکی و بیوی کے ساتھ کس طرح کا مستقبل میں معاملہ کرے گا احترام وعزت دے گا یا پھر اس کے ساتھ نوکرانی جیسا سلوک کرے گا ، لڑکی والے اپنی پاکزہ سیرت بچی کا نکاح لالچ و طمع میں آکر مالدار آدمی سے کر دیتے ہیں مگر اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ وہ بد اخلاق و بدکردار لڑکا کس طرح کے رویے سے پیش آئے گا بیوی کے ساتھ ۔بہت سے والدین اپنے بچے کی کمزوریوں سے واقفیت کے باوجود اس کے لئے اچھی و نیک لڑکی کا رشتہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ عمل اللہ کی رضا حاصل کرنے کا سبب بنے گا؟؟؟
ایک آدمی کی دو بیٹیاں ہوں اور ان میں سے ایک متدین اور اچھے اخلاق و کردارکی حامل ہو اور دوسری بدسیرت و برے اخلاق کی حامل تو اس کے پاس اگر کوئی رشتہ طلب کرنے کے لئے آئے اور والد جانتا ہو کہ وہ نوجوان جس کے لئے رشتہ طلب کیا جا رہا ہے وہ نیک سیرت و متدین ہے تو لازمی ہے کہ وہ امانت داری کے ساتھ ان کو بتائے کہ آپ کے لئے میری فلاں بیٹی جو صوم و صلاة کی پابند ہے اور اس کے ساتھ حسن اخلاق کی پیکر بھی اس کو قبول کرلیں جبکہ دوسری بیٹی کی خامیوں سے آگاہ کر دیں تاکہ اس نوجوان کی زندگی اجیرن نہ ہو اور دونوں میاں بیوی ابتر حالات میں زندگی بسر کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح برے لڑکے کے لئے برا رشتہ ہی دیاجانا چاہیے نہ کہ اچھا و نیک رشتہ دے دیں اور بعد میں سماجی انتشار و فسادکی چنگاری گھروں کو راکھ بنا دے ۔ نکاح کا معاملہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لہذا اس میں باریک بینی سے فیصلے کیے جانے چاہییں کسی بھی لڑکی یا لڑکے کی حیات کے ساتھ کلہواڑ کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اگر والدین بچوں کے رشتہ کرتے وقت مندرجہ بالا امور کا لحاظ و پاس نہیں رکھیں گے تو معاشرے میں جہاں اور فساد و بے چینیاں جنم لیں گی وہیں پر سماج میں طلاق و رشتے ٹوٹنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور اس سب کا گناہ والدین کو ہوگا کہ انہوں نے بچے اور بچی کی زندگی کو برے ہاتھوں میں منتقل کیا۔
Dr.Khalid Fuaad
تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری (چئیرمین بعثہ الازہریہ) Khalidfuaad313@gmail.com