پانامہ لیکس: کمشن کے لئے مشاورت مکمل، 2 ریٹائرڈ ججوں کے ناموں کو حتمی شکل دیدی گئی

Tassaduq Jillani

Tassaduq Jillani

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزارت قانون و انصاف میں خصوصی اجلاس ہوا، پانامہ لیکس کے انکشافات اور اس حوالے سے الزامات کا جائزہ لینے کیلئے مجوزہ کمشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی یا جسٹس ناصر الملک کو بنائے جانے کا امکان، وزارت قانون نے کمشن کے سربراہ اور دیگر ارکان کے ناموں کو حتمی شکل دیتے ہوئے سمری منظوری کے لئے وزیراعظم کو بھیج دی ہے جس کے بعد جلد نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیر قانون زاہد حامد، لاء ایڈوائرز ٹو پی ایم بیرسٹر ظفراللہ خان ودیگر پر مشتمل خصوصی اجلاس ہوا جس میں عدالتی کمشن کے طریقہ کار، قواعد و ضوابط اور اس کے سربراہ کے نام پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں عدالتی کمشن کے قیام کے حوالے سے آئینی قانونی پہلوئوں، حیثیت دائرہ کار کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ یہ کمشن 1996 کے ایکٹ کے تحت قائم کیا جائے گا۔

اس حوالے سے متعدد ججز سے رابطہ کیا، ان سے رابطے کئے گئے ذرائع مختلف ناموں پر غور کے بعد سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ ججز کے ناموں کوحتمی شکل دی گئی ان میں سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس (ر) تصدق جیلانی اور جسٹس(ر) ناصر الملک کے نام شامل ہیں ان کی حتمی منظوری کے لئے سمری وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھیج دی گئی ہے۔ ناموں کی منظوری کے بعد وزارت قانون و انصاف کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے۔

ٹرمز آف ریفرنس کے حوالے سے معتبرذرائع کا کہنا ہے تحقیقاتی کمشن باضابطہ ریفرنس تیار کرے گا وہ پانامہ دستاویزات میں شامل تمام 250پاکستانیوں کے حوالے سے تحقیقات کرے گا، اس کے لئے وہ جوڈیشل افسر (سیشن جج) بھی مامور کر سکتا ہے یا تحقیقات کے لیے ایف آئی اے، نیب، کی جے آئی ٹی بنواکر رپورٹس لے سکتا ہے، دوسری صورت یہ بھی ہے اگر عدالتی تحقیقاتی کمشن خود انکوائری کمشن کا بھی کردار ادا کرتے ہوئے ملوث افراد کو خود طلب کرتا اور شواہد اکٹھے کرتا ہے، گواہ، دستاویزات کے حصول کے لیے خود احکامات جاری کرتا ہے جس کی روشنی میں فائنل رپورٹ تیار کرتا ہے، تو اس کے لیے پہلے کمشن کے اختیارات اور دائرہ کار کا تعین نہایت ضروری ہے، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس رپورٹ اور اس کی سفارشات پر کہاں تک عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔

ذرائع کے مطابق وزارت قانون نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمشن کے قیام بارے میں مشاورت مکمل کر لی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات جوڈیشل کی بجائے انکوائری کمشن کرے گا، انکوائری کمشن ایکٹ 1996 کے تحت قائم کیا جائے گا۔ سپریم کے ایک جج کے ساتھ ہائی کورٹ کے بھی 2 ججز کے نام شامل کئے جانے کا امکان ہے تاہم پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج کمشن میں شامل نہیں ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کمشن کے جج کی منظوری کے بعد تحقیقات کے لئے کمشن کے قواعد و ضوابط طے کئے جائیں گے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کمشن کے سامنے خود پیش ہو کر سعودی عرب میں اپنی سٹیل مل اور دیگر اثاثوں سے متعلق بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کمشن پانامہ لیکس میں آنیوالے تمام پاکستانیوں کے معاملات کی تفتیش کریگا کمشن کے ٹرمز آف ریفرنسز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

جوڈیشل کمشن کی تفتیش صرف شریف فیملی تک محدود نہیں ہو گی۔ انکوائری کمشن کے سربراہ کی مرضی سے مزید 2 ججز کمشن میں لئے جائیں گے۔ ٹرمز آف ریفرنسز حکومت طے کرے گی۔ ذرائع کے مطابق انکوائری کمشن کے سربراہ کو ٹرمز آف ریفرنسز میں توسیع کا اختیار ہو گا۔ کمشن کسی بھی گواہ کو بلا سکتا ہے اور ریکارڈ طلب کر سکتا ہے۔ کمشن ترجیحی بنیادوں پر 45 دن میں انکوائری مکمل کر سکتا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحقیقات کب مکمل ہونی ہیں اس کی مدت کا تعین انکوائری کمشن کا سربراہ کرے گا۔

کمشن کے لئے ناموں کی حتمی منظوری وزیر اعظم نواز شریف دینگے۔ خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما سلیم سیف اللہ خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پانامہ لیکس کے انکشافات پر انکوائری کمشن بنانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے کاروبار اور آف شور کمپنیوں کی تمام دستاویزات کمشن کے سامنے رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

پانامہ لیکس کے پس منظر میں بدعنوانی کے تمام الزامات سے وہ بری ہوں گے۔ خاندان سو سال سے کاروبار سے منسلک رہا ہے اور ان کی بڑی بڑی لسٹڈ کمپنیاں ہیں جو سیمنٹ، چینی اور موبائل فون کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ سب سے پہلی بات جس کی تحقیقات ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ آیا جو رقم سمندر پار کمپنیوں میں جمع کرائی گئی کیا وہ جائز طریقے سے بنائی گئی یا وہ بدعنوانی سے حاصل کی گئی۔ بعض اوقات عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے یا اپنی کمپنیوں کے حصہ داروں کے مالی مفاد کے پیش نظر آف شور کمپنیاں یا سمندر پار کمپنیاں بنانا ضروری ہوتا ہے۔