جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا ہے

Prime Minister Nawaz Sharif

Prime Minister Nawaz Sharif

تحریر: سید توقیر زیدی
وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے نتیجے میں سامنے آنے والے امور اور اپے خاندان پر الزامات کی تحقیقات کیلئے جس جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا ہے وہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر مسترد کردیا ہے حالانکہ ابھی کمیشن کے دائرہ کار کے بارے میں بھی پوری تفصیل دستیاب نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس مسئلے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتی رہیں گی۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچیں بلکہ یہ ہے کہ سیاسی گرم بازاری جاری رہے، حالانکہ دنیا بھر میں پاناما لیکس کے انکشافات کے ساتھ ہی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ غالباً ہمارے ہاں بعض سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ پاناما لیکس سے جو کچھ لیک ہوا ہے وہ حرفِ آخر ہے اور اسے من و عن تسلیم کرلینا چاہئے، حالانکہ ان انکشافات کو روسی صدر پیوٹن مسترد کرچکے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا بھی کہنا ہے کہ اگر ان کے آنجہانی والد کا نام آف شور کمپنیوں کے ساتھ آیا ہے تو اس کا ان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں، چین نے بھی صدر شی چن پنگ پر الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

پاکستان میں شریف فیملی کے جن افراد کی آف شور کمپنیوں کا تذکرہ ہوا ہے اس کی وضاحت حسین نواز شریف اور مریم نوازشریف کی طرف سے آچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے عبدالرحمان ملک تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ان کی کمپنی کے خلاف جو الزامات بھی لگے ہیں وہ ”را” کی کارروائی ہے۔ ان لیکس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو یو اے ای میں قائم ان کی کمپنی نے عراق کے صدر صدام حسین کو رشوت پیش کی تھی جس کی پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کی طرف سے وضاحت آچکی ہے کہ یہ الزامات پہلے بھی لگائے گئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے سارے لوگوں کی طرف سے اگر پاناما لیکس کے معاملات کو چیلنج کیا گیا ہے تو کیا اس بات کی کوئی حیثیت نہیں اور ان سب لوگوں کو جھٹلا کر صرف ایک ایسے ادارے کی بات کو حتمی اور پتھر پر لکیر تصور کرلیا جائے جس کا اپنا حدود اربعہ ابھی تک واضح نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے مقاصد کیا ہیں۔ وکی لیکس نے بھی ایک زمانے میں ہلچل مچائی تھی، لیکن پھر یہ ہوا کہ اس کے بانی جولین اسانج کو گرفتاری سے بچنے کیلئے سویڈن کے سفارتخانے میں پناہ لینا پڑی، حالانکہ اس کے انکشافات کے وقت تو لگتا تھا کہ دنیا میں اس سے بہادر شخص کوئی نہیں، لیکن جس انداز میں وہ سفارتخانے میں جاکر چھپ گیا اس سے اس کی ساری بہادری طشت از بام ہوگئی۔
دنیا بھر کے ممالک اپنے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کشش پیدا کرنے کیلئے انہیں اپنے اپنے انداز میں ٹیکسوں کی چھوٹ دیتے ہیں۔

Corporations

Corporations

دنیا میں یہ رواج بھی ہے کہ بڑی بڑی کارپوریشنیں ان ملکوں میں اپنے کارخانے لگاتی ہیں جہاں لیبر نسبتاً سستی ہوتی ہے۔ امریکی کمپنیوں نے دنیا کے ایسے ملکوں میں اپنے کارخانے لگا رکھے ہیں، جہاں ان کی تیار کردہ اشیاء پر لاگت مقابلتاً کم آتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب چین نے اپنے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی اجازت دی تو جاپانی سرمایہ کاروں نے اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھایا، حالانکہ دونوں ملکوں کے سیاسی اختلافات معروف ہیں اور اب تک یہی صورتحال چلی آ رہی ہے۔ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات اس وقت سے خراب چلے آ رہے تھے جب فیڈل کاسترو برسر اقتدار آئے تھے۔ امریکی سی آئی اے نے انہیں قتل کرانے کی سازشیں بھی کیں اور دونوں ملکوں میں کشیدگی کی ایک لمبی تاریخ ہے لیکن اب امریکی صدر اوباما نے ہوانا کا دورہ کیا ہے تو ان کے ساتھ ان امریکی کمپنیوں کے چیئرمین، صدور اور چیف ایگزیکٹوز کا ایک بڑا وفد بھی تھا جو کیوبا میں سرمایہ کاری کیلئے بے چین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان سرمایہ کاروں کیلئے امریکہ کی اپنی وسعتیں تنگ پڑگئی ہیں؟ اور انہیں کون سی چیز کھینچ کر کیوبا لے جا رہی ہے؟ اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی اس سرمایہ کاری کو پھولتے پھلتے اور بڑھتے دیکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہاں جو کاروبار کریں گے اس سے انہیں معقول منافع ملے گا۔ جو امریکی ہوائی کمپنیاں ہوانا تک اپنی سروس شروع کرنے کیلئے بے چین ہیں کیا ان کے اپنے ملک میں ایسے شہروں کی کمی پڑگئی ہے جہاں وہ جہاز چلاسکیں؟ سرمایہ ہمیشہ وہیں جائے گا جہاں سرمایہ کاروں کو منافع ملے گا اور حالات سازگار ہوں گے۔

ایک زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں بنک قائم کرنا بہت آسان تھا اور بہت ہی تھوڑے سے سرمائے سے یہ کاروبار شروع ہو جاتا تھا، چنانچہ سرمایہ کار بنک قائم کرتے، کچھ عرصے کیلئے چلاتے، جب بنک کا کاروبار تھوڑا سا جم جاتا تو منافع لے کر اسے فروخت کردیتے۔ کئی پاکستانیوں نے بھی اس زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں بینک قائم کئے ایک بینک کی برانچیں اس وقت بھی پاکستان میں کام کر رہی ہیں، اب آف شور کمپنیاں اسی مقصد کیلئے کام کرتی ہیں۔ پاناما لیکس میں صرف نوازشریف فیملی کا ذکر نہیں ہے اس میں اور بھی بڑے بڑے نام ہیں، بہت سے بزنس ٹائیکون کا ذکر بھی ان میں موجود ہے، دو بڑے میڈیا ہاؤسز کا ذکر خیر بھی ان میں موجود ہے۔ جوڈیشل کمیشن کا ابھی تو صرف اعلان ہوا ہے، جب ٹرمز آف ریفرنس سامنے آئیں گی تو پتہ چلے گا کہ اس کی تحقیقات کا دائرہ کار کیا ہوگا اور ان کی زد میں کون کون آئے گا؟ محض جوڈیشل کمیشن کے اعلان کے ساتھ اس کو مسترد کردینا کسی سنجیدہ طرز عمل کا اظہار نہیں لگتا۔ ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ملک ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ اگر سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگائیں گے تو انہیں بہترین منافع ملے گا،

pakistan

pakistan

سرخ فیتہ ان کے راستے میں حائل نہیں ہوگا، انہیں ٹیکسوں میں چھوٹ ملے گی اور منافع بیرون ملک لے جانے کی اجازت ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اگر پاکستان اپنی معیشت کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب دیتا ہے تو یہ کوئی ایسا کام نہیں جو صرف پاکستان ہی کرتا ہو یا کرنا جانتا ہو۔ دنیا کے بہت سے ملک اپنی معیشتوں کی بہتری کیلئے اس سے ملتے جلتے اقدامات کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ آف شور کمپنیاں بنانا بھی اسی نوعیت کا کاروبار ہے جس کے ذریعے رقوم کی ٹرانزیکشن میں آسانی ہوتی ہے اور سرمایہ کار ان میں سرمایہ لگا کر منافع کماتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایک زمانے میں سوئٹزر لینڈ میں بنک بناکر منافع کمایا جاتا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جو دنیا کے بیشتر ملکوں میں رائج ہے،

سرمایہ لگا کر منافع کمانے کی خواہش کوئی بْری خواہش نہیں سمجھی جاتی۔ پاکستان میں جو جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا ہے وہ نوازشریف فیملی پر الزامات کی تحقیقات کرے گا جن کے پاس ثبوت ہیں وہ اس کمیشن میں جاکر پیش کرسکتے ہیں۔ کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس میں یہ بات رکھی جانی چاہئے کہ آف شور کمپنیاں بنانے والے کیا سرمایہ پاکستان سے لے کر گئے اور اس پر پورا ٹیکس دیا گیا۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کوئی متبادل تجویز بھی تاحال نہیں دی۔ انہوں نے اگر کمیشن کو مسترد کیا ہے تو جوابی طور پر ایسی تجویز بھی سامنے آنی چاہئے تھی جو کمیشن سے بہتر ہوتی اور حقیقت حال تک پہنچنے میں زیادہ ممد و معاون ثابت ہوتی۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر: سید توقیر زیدی