تحریر : صہیب سلمان کسی طرح بھٹو صاحب کو اطلاع ہو گئی کہ گو ر نر نے ان سے متعلق میر ے سا تھ فلاں فلاں بات کی ہے وہ دوسرے یا تیسرے روز اچانک میرے دفتر چٹان میں آگئے ۔پہلے سے کوئی ملاقات طے نہ تھی مجھ سے علیحدٰگی میں بات کی کہ گورنر نے آپ سے فلاں فلاں بات کی ہے میں حیران رہ گیا کہنے لگے کہ ایوب خان تو گورنر موسیٰ کو نکالنا چاہتے تھے اور نکال دیا تھا ۔میں نے صدر کی خواہش سے بالا بالا موسیٰ کو ایران کا سفیر مقرر کیا ایوب خان ناراض ہو گئے لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ملک امیر محمد خان گورنری سے نکالے گئے اور اُن کی جگہ موسیٰ خان لائے گئے۔ شورش کشمیری یہ بھی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان بن جانے کے بعد صا حبزا دہ فیض الحسن احرار میں تھے ختم نبوت کی تحریک تک احرار میں رہے پھر وہ بر یلوی علماء کیساتھ ہوگئے و ہاں سے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے ہوگئے ۔
ایسا تعلق پیدا کیا کہ ایوب خان اُن سے بہت راضی تھے اور صا حبزادہ فیض الحسن پر اپنی جان بھی چھٹر کتے تھے ،شورش کشمیری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب 1962ء میں دیو بند اور بریلوی مسلئہ پیدا ہوا تو چٹان میں شدومت سے لکھا گیا تو صا حبزادہ فیض الحسن نے مجھے کا فر قرار دے رہے ۔میں بھی اُ ن کے خلاف لکھتا رہا نتیجتہً دونو ں میں علیک سلیک ختم ہو گئی 1967ء کے سہ ما ہی میں صا حبزادہ فیض الحسن صا ب اچانک دفتر چٹان میں آ گئے مجھے ان کی اچانک آمد پر حیرانگی ہوئی کیونکہ وہ تو عام لوگو ں کے درمیا ن میں بھی ہم جیسوں سے معا نقہ نہ کرتے بلکہ پا نی کے بلبل کی طرح ہٹ جاتے لیکن آج چائے خود طلب کی اگر کبھی ملتے ملاتے تو بھی میری خواہش پر بھی پانی نہ پیتے۔دس پندرہ منٹ با تیں کرنے کے بعد کہنے لگے کہ میں اس لئے آ یا ہوں تمہارے متعلق صدر اور گورنر سے تعریفی کلمات سن کر بڑی خوشی ہوئی ۔
Bhutto
آغا شورش یہ بھی لکھتے ہیں کہ صدر اور گورنر موسیٰ چاہتے تھے کہ میں حکومت کیخلاف قلم روک دوں اس کیلئے وہ بہت کچھ د ینے کو تیار تھے لیکن میں اس طبیعت کا آ دمی نہ تھا۔گورنر موسیٰ صرف یہ چاہتے تھے کہ میں بھٹو کی معانت کرنا چھو ڑ دوں اس وقت اخبار نو یسوں میں مجید نظامی اور میں صرف دو ہی بھٹو کا سا تھ دے ر ہے تھے ورنہ ملک میں کو ئی ا خبار بھٹو کا نا م چھا پنے کیلئے تیار نہ تھے میرا معاملہ یہ تھا کہ میں تحر یر کے علاوہ تقریر میں بھی اُن کا ساتھ دے رہا تھا ۔یو م حمید نظامی پر ہم نے بھٹو کو پلیٹ فارم مہیا کیا لاہور میں بھٹو کا یہ پہلا جلسہ تھا جو بہت بڑے ہجوم کو وجہ سے حکومت کی پر یشانی کا سبب بنا کسی اخبار
نے کورج نہ دیا صرف چٹان ہی تھا جس نے آرٹ پیپر کے ورق پر بھٹو کے استقبال کو اس طرح پیش کیا کہ اس شمارے کی بہت سی کا پیا ںخو د بھٹو نے بعض امر یکی و ا قع نگارکو نذر کیں ،اُن کے علاہ کئی ممالک میں یہ پر چہ بھیجا گیا۔بھٹو کا اخبارات میں چھپنا تو ایک طرف رہا کوئی سا ملکی پریس اُ ن کی تحریر کو چھاپنے کو تیار نہ تھا اُن کی قلم سے سیاسی حالات پر دو کتابچے تھے پریس چھاپتے ہو ئے ڈرتے تھے یہ کام بھی چٹان پرنٹنگ پریس نے بڑی دلیری سے کیا کا غذ ،چھپوائی سب کچھ مفت بھٹو صاحب نے لآڑکانہ سے اپنا منشی اُجرت دے کر بھیجا لیکن میں نے جواب دیا کہ چٹان کیطرف سے یہ ہدیہ سمجھیں ۔بھٹو نے تشکر کے طور پر جو خط لکھا اس کے الفاظ دس بارہ لفظو ں سے زیادہ نہ تھے یہ خط راقم کے پاس سیاستدانوں کی فنکاریوں کی یاد گار کے طورپر محفوظ ہے ۔
شورش کشمیری یہ بھی لکتھے ہیں کہ اُسی زمانہ میںبھٹو کی سو شلزم کے متعلق ایک تقریر پر کوثر نیازی نے بلاوجہ ہنگا مہ کھڑا کردیا بعض ملاؤں سے جمعہ کے خطبا ت میں تقریر یں کروائی گئیں ،پوسڑ نکاے اور فتوے ترشوائے گئے ،چٹان نے کوثر نیازی کے اعمال و افکار کا محاسبہ کیا لیکن یہ محاسبہ کو ثر کو سرکار کے قریب لے آ یا ۔ایسے ہی کارناموں پر کوثر نے روٹ پرمٹ ،امپورٹ لائیسنس اور ہر وہ چیز جو وہ حا صل کرسکتا تھایہ شخص ایوب خان کو سبکدوشی تک ان سے چمٹا رہا اور آج یہ شخص بھٹو کی جماعت میں سیکر ٹری اطلاعات ہے ۔