بیچارے عوام اور ہمارے لیڈر

Pakistan

Pakistan

تحریر : ریاض احمد ملک
پاکستان ہم نے کس مقصد کے لئے حاصل کیا رتھا پاکستان بننے کے بعد ہم ان مقاصد کو بھول چکے ہیں ہم نے سیاست کو کاروبار بنا لیا ہے اور چند لوگوں کا حصار بنا کر عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں کہیں جا کر سو میں سے ایک لیدر کچھ ٹھیک ہوتا بھی ہے تو گانا گانے والے تالیاں بجانے والے ان کے دوست خوشامد کی انتہا کر کے وہ کام کرتے ہیں رہے اللہ کا نام اور یہی خوشامدی ٹولہ اپنے مقاصد کی کاطر اس لیدر کا بیڑا غر ق کر دیتا ہیمیں نے یہ ساری تمہید ضلع چکوال کے سیاستدانوں کو دیکھ کر باندھی ہے یہ آج کا مسلہ نہیں میں نے جب سے ہوش سمبھالا ہے یہی کچھ دیکھ رہا ہوں میں قصہ کافی عرصہ پہلے کا بنانا چاہوں گا۔

میرے ایک دوست راجہ عظمت حیات جو انتہائی شریف انسان تھے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے اور مجھے ان سے ایک کام پڑ گیا چنانچہ میں صبع سویر ان سے رانطہ کر کے بڑی مشقت سے چوہا سیدن شاہ پہنچا تو وہاں ان کے ایک شہزادے یہاں میں ان کا نام نہیں لوں گا میری خوب خاطر کی چائے پانی کے بعد جب میں نے راجہ صاحب سے ملاقات کی خوہش کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے بنایا کہ وہ تو رات کو لاہور چلے گئے ہیں مجھے یقین تھا کہ راجہ صاحب تو جھوٹ بول نہیں سکتے مگر اس شخص نے شائد ۔۔۔۔؟ بحر حال میں چکوال سے لاہور پہنچ گیا جہاں پتا چلا کہ راجہ صاحب آج چکوال میں ہیں کل وہ لاہور آئیں گے میں نے رات لاہور میں گزاری اور دوسرے روز ان کے ہاسٹل پہنچا مگر وہ وہاں نہیں پہنچے تھے کافی انتظار کے بعد راجہ صاحب جب وہاں پہنچے مجھے دیکھ کر کہا کہ میں لاہور کیوں آیا۔

Leadership

Leadership

انہون نے تو مجھے گھر آنے کو کہا تھا اب میں نے بہتر سمجھا کہ ان کے دوست کو ان کی نظروں سے نہ گرایا جائے انہیں بتایا کہ میں کسی کام سے لاہور آ گیا تھا سوچا یہاں ہی آپ سے ملاقات کر لی جائے وہ مطمین ہوئے یا نہیں انہوں نے میرا کام تو کرا دیا مگر میں ان کے دوست کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہوں قارئین وہی شخص آج بھی کسی نہ کسی طریقے سے ان کے گھر کے طواف کرتا ہے اور اس امید سے ہے کہ وہ اپنا مقام کسی اور کو نہیں دے گا میں اک روز راجہ یاسر کی رہائش گاہ پر گیا تو وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جب اسے میرے بارے میں علم ہوا کہ میں ایک صحافی ہوں تو میرے قریب آ گیا اور اپنا مسلہ بتایا اور کہا کہ یہ مسلہ کون حل کر سکتا ہے تو میں نے جس لیڈر کا ناملیا اس نے مایوسی کا اظہار کیا جب میں نے مہوش سلطانہ کا نام لیا تو اس نے کہا کہ وہ تو شائد کچھ کرتی مگر ان کے گھر ،،،، اس نے اسی شخص کا نام لے لیا جس کا ذکر میں کر رہا ہوں اس نے کہا کہ ہر لیڈر کے دروازے پر ایسا شخص ہی بیٹھا ملتا ہے۔

خیر میں جو قارئین کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہی ہے کہ ہمارے لیڈر اگر کسی کے لئے دل میں ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوں تو ان کے چہتے اس ہمدردی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں پہلے تو اللہ تعالٰ کے فضل و کرم سے ہمارے تمام لیڈر ہی عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر اقتدار کی کرسی تک پہنچتے ہیں مگر پھر یا تو وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ عوام کے مسائل ایوانوں تک پہنچائیں سڑک گلی بنوا دینا ان کا کام نہیں ان کا کام تو ایوانوں میں چیخ چیخ کر ہمارے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کا حل ڈھونڈنا ہوتا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائے جنرل مجید ملک اور میجر طاہر اقبال کے ہمارے کسی لیڈر چاہے وہ صوبائی اسمبلی کا ممبر ہو یا قومی اسمبلی کا ایوان میں بولتے نہیں سنا گیا یا وہ بولتے نہیں یا انہیں بولنے نہیں دیا جاتا۔

دونوں صورتوں میں ان کی قابلیت ایک سوالیہ نشان ہے اگر وہ ایوان میں بولے ہیں تو میڈیا سے ان کی نہیں بنتی کہ وہ ان کے کلمات عوام تک پہنچا دیں یہاں اگر عوام تک کوئی خبر پہنچتی ہے تو سن لیں مرغ کڑاہی صحافیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو گھر بیٹھ کر ہی ان کی تازہ خبر عوام تک مصالحے لگا کر پہنچاتے ہیں یہ رونا ہم روتے ہی رہے ہیں کہ ہمارے لیڈر اسمبلی پہنچنے تک خوب دعوے کرتے ہیں مگر اسمبلی پہنچ کر انہیں سانپ سونگ جاتا ہے میں نے ایسا ہی رونا ایک محفل میں رو دیا کہ ہمارے لیڈران اسمبلی میں بول نہیں سکتے تو انہوں نے مجھے نہ صرف شرمندہ کیا بلکہ بڑے فخر سے ایک MPAمرحوم کا نام لے کر کہا کہ وہ ایک مرتبہ بولے تھے میں نے تجسس سے پوچھا کہ انہوں نے عوام کا کون سا مسلہ اسمبلی میں اٹھایا تو انہوں نے سپیکر سے تو نہیں اپنا میک آن کر کے سپیکر پر کہا کہ یہ سامنے والی کھڑکی بند کرا دو اس سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے یہ سن کر میں حیران بھی ہوا اور خوش بھی حیران اس لئے ہوا کہ وہ یہاں عوام کے لئے کیوں نہیں بولے خوش اس لئے ہوا کہ چلوں اسمبلی میں بولنے کے لئے ان کی جھجک تو ختم ہوئی شائد اب وہ عوام کے لئے ہی بول اٹھیں گے مگر میرا خیال صرف خواب ہی رہا جسے آج تک تعبیر نہیں مل سکی۔

National Assembly

National Assembly

میں کل والوں کو چھوڑ کر آج وال؛وں اور پھر ان لیڈران کا ذکر ہی کر لوں جو آنے کو تیار اور بے قرار بیٹھے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ عوام کی خدمت کر کے اپنا پیٹ بھریں اور جو موجود ہیں وہ بھی تو عوام کی خدمت کر ہی رہے ہیں ان کی تنخواہیں ٹی ائے ڈی ائے کے علاوہ کمیشن وغیرہ کی مد میں اتنا کچھ تو مل رہا ہے جس سے وہ نا خوش ہیں بلکہ ان کے خوشامدی بھی ان کے لئے غم کی دنیا میں گم ہیں جس غم کی وجہ سے وہ ڈھول باجے لے کر ان کے استقبال کے لئے ہر لمعہ تیار بیٹھے ہیں۔

ان کے ڈھول کی تھاپ پر ان کی کوشش ہوتی کہ ان کے دوستوں جو ان کے خیر خواہ بھی ہوتے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے بھی کوشش جاری رکھتے ہیں کیونکہ اگر ان کے خیر خواہ قریب ہوں گے تو ان کی خیر نہیں ہوگی وہ اپنی خیر کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ چاہے ان کے پیارے لیڈر کا ککھ نہ رہے ان کے کام ہوتے رہیں قارئین یہ سارا المیہ قائداعظم سے لے کر میاں برادران کے اقتدار تک چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا اور ہم اس آس پر بیٹھے رہیں گے کہ پاکستان کو کبھی تو اس کا غمخار ملے گا اور عوام کو بھی کو ئی ایسا لیڈر ملے گا جو ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھے گا اور یہ ڈھول باجوں والے دوستوں کو وہ گھاس نہیں ڈالے گا آپ نھی دعا کریں اور میں بھی ،،،،،،،،،،،؟

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر : ریاض احمد ملک
[email protected]
03348732994