تحریر : سید توقیر زیدی ایم کیو ایم کی مخالف سیاسی جماعتوں نے عملاً یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ وہ اسے الیکشن میں شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ورنہ وہ کچھ نہ ہوتا جو کراچی کے حلقہ نمبر این اے 245 میں ہوا، یہاں سے 2013ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے امیدوار ریحان ہاشمی کوئی 80 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتے تھے۔ ویسے تو اس کے امیدوار اس سے بھی زیادہ لیڈ لے جاتے ہیں، مخالفین کا الزام ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن اس وقت تک پولنگ کے عملے کو سٹیشن کے اندر ہی نہیں گھسنے دیتے جب تک بیس پچیس ہزار ووٹ بکسے میں ڈال نہیں لیتے۔ اب جو امیدوار اتنے ووٹ ”گھر” سے لے کر چلے گا، اسے کیسے ہرایا جا سکے گا۔
مخالفین کے نزدیک ایم کیو ایم کی کراچی میں کامیابی کا راز یہی ہے، لیکن اب کی بار ضمنی الیکشن میں جو ہوا، عموماً ایسا نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو بہت ہی کم، خواجہ احمد حسان کے مقابلے میں البتہ ایسا ہی واقعہ ہوچکا ہے جب چند روز پہلے تحریک انصاف کا امیدوار پراسرار حالات میں مقابلے سے دستبردار ہوگیا تھا، اس وقت تحریک انصاف نے الزام لگایا کہ اْسے پولیس کے ذریعے دستبردار کرایا گیا۔
کراچی میں تو تحریک انصاف کے امیدوار امجد اللہ خان نہ صرف الیکشن سے چند گھنٹے پہلے پارٹی چھوڑ کر ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے، بلکہ اب وہ عمران خان کو ”مشورہ” دے رہے ہیں کہ وہ پارٹی پر توجہ دیں، غالباً اب وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان پارٹی پر توجہ دے رہے ہوتے تو وہ یوں پارٹی چھوڑ کر نہ جاتے۔ کراچی میں تحریک انصاف کے سیاسی معاملات کی نگرانی عمران اسماعیل کرتے ہیں، انہی کی سفارش پر مجاہد اللہ خان کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا گیا تھا، کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ عمران اسماعیل کو سیاسی حرکیات اور سیاسی شخصیتوں کا کوئی علم نہیں، ورنہ وہ کم از کم سفارش تو ایسے امیدوار کی کرتے جو الیکشن ہارتا یا جیتتا، کھڑا تو رہتا، امجد اللہ خان نہ صرف الیکشن سے دستبردار ہوگئے بلکہ سیدھے ایم کیو ایم میں بھی شامل ہو گئے۔
Imran Khan
تحریک انصاف کا خیال یہ رہا ہے کہ وہی کراچی میں ایم کیو ایم کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اگر اسی کو مقابلہ کہتے ہیں تو پھر مقابلے کا لغوی معنی تبدیل کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کو اگر مقابلہ درپیش ہوگا تو مستقبل میں مصطفی کمال کی ”پاک سرزمین پارٹی” سے ہوگا، جو اول تو ایم کیو ایم کے راز ہائے درون خانہ کے محرم ہیں اور دوسرے متحدہ کے اس نعرے کے موافق کام کرسکتے ہیں۔ ”ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے”۔ ویسے کہنے کو تو آفاق احمد بھی اسی آسمان کے ٹوٹے ہوئے تارے ہیں لیکن سچی بات ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں اپنی مہاجر قومی موومنٹ کا رنگ نہیں جماسکتے، جب وہ اور عامر خان ایم کیو ایم سے نکلے تھے تو انہوں نے اپنے گروپ کا نام ایم کیو ایم (حقیقی) رکھا تھا جو بعد میں مہاجر قومی موومنٹ بن گئی۔ حقیقی کی ایک چھوٹی سی پاکٹ کراچی میں ضرور ہے، لیکن پورے کراچی میں وہ ایم کیو ایم کیلئے کوئی چیلنج نہیں بن سکی، بلکہ عامر خان کے واپس جانے کے بعد تو آفاق احمد ویسے بھی تنہا رہ گئے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں حقیقی یا مہاجر قومی موومنٹ کے امیدوار بھی کھڑے تھے لیکن اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔ متحدہ کے امیدوار کو ہی برتری حاصل ہے، پیپلز پارٹی کا امیدوار بھی اس نشست پر موجود ہے لیکن اس کی کامیابی کا بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ان حالات سے ہی یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں عملاً ایم کیو ایم سے نفسیاتی شکست تسلیم کرچکیں۔ مصطفی کمال کی حمایت میں اب تک ایک خاتون سمیت 3 ارکان سندھ اسمبلی نے اپنی نشستوں سے استعفے دیئے ہیں، جن میں سے دو ارکان کے استعفے تو سپیکر تک پہنچ گئے ہیں، جو چند روز میں منظور ہو جائیں گے تو ان نشستوں پر بھی ضمنی انتخاب ہو جائے گا۔
پاک سرزمین پارٹی کو فی الحال ضمنی انتخاب سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ اگر دوچار نشستیں جیت بھی لے تو سندھ اسمبلی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں بن سکتی، یہ نئی پارٹی 2018ء کے الیکشن کیلئے تیاری کرے گی اور اگر اپنا تنظیمی نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوگئی تو ایم کیو ایم کیلئے چیلنج بن سکے گی۔ اس وقت تک ایم کیو ایم کیلئے کیسے کیسے مشکل مراحل آئیں گے فی الحال اْن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ویسے تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہی رہتی ہیں اور جو کارکن جماعت چھوڑ رہے ہوں، وہ بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو بتاتے ہی ہیں کہ انہوں نے جماعت کیوں چھوڑی؟ مجاہد اللہ خان نے بھی ایسی باتیں کی ہیں اور عمران خان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پوری انتخابی مہم کے دوران انہیں ایک فون کال تک نہیں کی، شروع ہی میں میں نے عرض کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین عملاً یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ اسے شکست نہیں دے سکتے۔
Election
کیا مجاہد کا یہ کہنا کہ عمران خان نے پوری انتخابی مہم کے دوران انہیں ایک فون کال تک نہیں کی اس امر کی جانب اشارہ نہیں کہ تحریک انصاف اس ضمنی الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ مجاہد نے البتہ ایک بات ایسی کی ہے جس پر عمران خان کو ضرور توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے بعض رہنما عمران خان کے نام پر پیسہ بنا رہے ہیں، پیسہ بنانے کا الزام ایسا ہے جو عام انتخابات میں تحریک انصاف کے رہنماؤں پر لگتا رہا ہے اور کہا جاتا تھا کہ پارٹی ٹکٹ دلوانے کیلئے بعض رہنماؤں نے پیسے بھی لے لئے اور ٹکٹ پھر بھی نہیں دلوایا۔ پارٹی کے باہر بھی بعض حضرات پر جو عمران خان کے قریب تھے یہی الزام لگتا رہا۔ اب اگر پارٹی چھوڑ کر جانے والا ایک شخص یہ الزام لگا رہا ہے تو کم از کم اس کی تحقیقات کا ڈول تو ڈالا جانا چاہئے۔
کراچی کے ضمنی الیکشن میں جب تحریک انصاف کا امیدوار پارٹی کو خیرباد کہہ کر ایم کیو ایم کی چھتری پر بیٹھ رہا تھا اس وقت قومی اسمبلی میں پانامہ لیکس پر دھواں دھار بحث ہو رہی تھی اور عمران خان اعلان کر رہے تھے کہ اب وہ احتجاج کیلئے رائیونڈ کا رخ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پانامہ لیکس میں شوکت خانم ہسپتال اور بنی گالہ کے گھر کا ذکر نہیں آیا۔ وہ یہ کہہ کر ان وزراء کے اس الزام کا جواب دے رہے تھے کہ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے کئی ملین ڈالر آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کئے۔ وزراء نے یہ بھی کہا کہ عمران نے 1980ء سے 2002ء تک (22 سال) کوئی ٹیکس ادا ہی نہیں کیا، عمران خان کا جواب اوپر آچکا، اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ الزام کیا تھا اور جواب کیا آیا، اسے کہتے ہیں تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو۔