تحریر: انجم صحرائی دوستو ماہ و سال گذرتے دیر نہیں لگتے وقت نے تو گذرنا ہوتا ہے سو گذر جاتا ہے ہمیشہ یہی ہوتا چلا آرہا ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے ابھی کل کی بات ہے ایک شادی کی تقریب میں لالہ میرو ،اختر وہاب ،افتخار بیگ اور عثمان شاہ سمیت سبھی اکٹھے تھے کہ شعیب جاذب کے انتقال کی خبر ملی شعیب جاذب الہی بخش سرائی ،نسیم لیہ ، بر کت اعوان اور خاور تھلو چی کی بیٹھک کے رازداران ہم سخن میں سے آ خری فرد تھے کا فی عر صہ سے علیل تھے آ خر چلے گئے جو نہی عثمان شاہ نے یہ خبر دوستوں سے شیئر کی تو ایک دوست نے بے ساختہ کہا “اوہ جانا تو سب نے ہی ہے ” میں نے ان کی بات سنی اور سو چنے لگا کہ عمر عزیز کو عمر رفتہ بنتے دیر ہی کتنی لگتی ہے شا ید کچھ لمحے مگر انسان ہے کہ بے چارگی اور بے بسی میں چھپے اس یقین “اوہ جانا تو سب نے ہی ہے ” کے باوجود ادھار میں ملے ان لمحوں کو ازل اور ابد بنا کر کر کیسی کیسی آنیاں جانیاں دکھاتا ہے کہ الاماں۔۔
ابھی گذشتہ دنوں مجھے لا ہور سے ایک موبائل کال موصول ہوئی ۔ کالر نے مجھے بتایا کہ ان کا تعلق ایک الیکٹرانک میڈ یا گروپ سے ہے وہ مجھ سے تقریبا 32 سال پہلے میری کتاب” پا کستانی اقلیتیں” بارے جاننے کے خواہشمند تھے کہ اب یہ کتاب کس بک سٹال پر ملے گی ۔ میں اس کتاب کا احوال اپنے ایک مضمون “پا کستانی اقلیتیں ۔میری پہلی کتاب “میں تفصیلا بتا چکا ہوں خیر میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے انہیں بتایا کہ اب یہ کتاب شا ئد کسی بک سٹال پر تو نہ ملے البتہ میرے فیس بک اکا ئونٹ کے فوٹو البم میں اس کی سکین کا پی مو جود ہے آپ وہاں سے ڈائون لوڈ کر سکتے ہیں ۔ دو تین دن بعد لا ہور ہی کے ایک پی ٹی سی ایل نمبر سیے ایک اور کال مو صول ہو ئی لائن پر کو ئی خاتون تھیں۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف ایک دوسرے الیکٹرانک میڈ یا گروپ سے بتا تے ہو ئے مجھ سے اسی کتاب بارے سوال کیا میرے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پا کستانی اقلیتوں کے موضوع پر ریسرچ ورک کر رہی ہیں اسی ریسرچ ورک کے دوران پنجاب لا ئبریری میں میری یہ کتاب ان کی نظر سے گذری کتاب خا صی شکشت و ریخت کا شکار تھی چو نکہ مو ضوع کے اعتبار سے یہ کتاب میرے لئے خا صی کار آمد ہے اس لئے مجھے یہ کتاب چا ہیئے کہاں سے ملے گی ؟میں نے انہیں بھی فیس بک کی راہ دکھائی۔
یہ سال 1984کا واقعہ ہے جب یہ کتاب شا ئع ہو ئی یہ کتاب ہم نے اپنے پبلیکشنز ادارہ تعارف کے زیر اہتمام شا ئع کی تھی ادارہ تعارف کا مختصر سا آ فس پہلے چوک شہیداں ملتان پر واقع عمران ان بلڈنگ میں قائم کیا گیا جو بعد میں ایم ڈی اے پلازہ چوک حسین آ گا ہی میں شفٹ ہو گیا تھا ۔ اور مجھے اس کتاب کی تر تیب و تا لیف کے لئے پا کستان کے چاروں صو بوں پشاور ، کو ئٹہ ، کراچی اور عمر کوٹ تک کا سفر کرنا پڑا ۔ میں نے اس کتاب کے لئے پا کستانی اقلیتوں کے ایم پی بھنڈارا ایڈوائزر ٹو پریذ نڈنٹ ، بشپ ما ئیکل نذیر علی ، بشپ ڈاکٹر جان جوزف ، بشپ جان وکٹر سیمو ئل ، چو ہدری چندو لال سابق ایم پی اے ،بشیر مسیح ڈپٹی سپیکر بلو چستان اسمبلی ، میر پور خاص کے ڈاکٹر ڈریگو اور عمر کوٹ کے ڈاکٹر ہر چند را ئے سمیت ڈھا ئی سو سے زیادہندو ، کر سچن اور پارسی ڈحائی سو سے زیادہ زعماء سے ملاقاتیں کیں اور انٹر ویوز لئے ۔ پا کستانی اقلیتیں کا آ خری باب میں “اسلام میں اقلیتیں ” کے عنوان کے تحت اس وقت کے بادشاہی مسجد کے امام مو لانا عبد القادر آزاد ،پا کستان مجلس شوری کے ممبر مولانا مفتی محمد حسین نعیمی ، معروف سینئر قانون دان محمد رفیق باجوہ ایڈ وو کیٹ اور میاں خالد اقبال ایڈوو کیٹ سپریم کورٹ کی تحریریں بھی شا مل اشاعت تھیں ۔ اس کتاب کی تر تیب و تا لیف بارے میرا ایک مضمون ” پاکستانی اقلیتیں ، میری پہلی کتاب ” کے عنوان سے پہلے ہی شا ئع ہو چکا ہے اگر خدا نے تو فیق دی اور شب و روز زند گی کی یہ اقساط کبھی کتابی صورت میں شا ئع ہوئیں تو میری خواہش ہو گی کہ یہ مضمون بھی شامل اشاعت ہو۔
Multan
ادارہ تعارف پبلیکشنز کے زمانے میں ملتان قیام کے دوران گذرے یادگار اور جدو جہد والے دن گذرے اس زمانے سے وابستہ سید پریس کے مالک شاہ جی ، امبر میڈیکل سٹور بیرون ملتان حرم گیٹ کے ڈاکٹر امین قمر ، جلال پورپیر والا کے محمد ارشاد مڑل ، قلمکار ساتھی صفیراخانم اور دفتر ادارہ تعارف کے روح رواں رانا مقبول ، جاوید یاد ، ڈاکٹر کشور مراد اور معروف شاعر نذیر قیصر کی محبتوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ ملتان قیام کے اسی زمانے کی یاد ہے جب استاد محترم عبد الحکیم شوق کے بڑے بیٹے طارق محمود کو انتہائی تشویشناک حالت میں بغرض علاج لیہ سے نشتر ہسپتال لایا گیا ۔ اس زمانے میں نشتر ہسپتال میں راجہ افتخار نیورو سرجن تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ مرحوم شیخ محمد یوسف(کو نسلر ) طارق کی تیمار داری کے لئے نشتر ملتان آئے اور ہم دونوں نے طارق کو بلڈ کا عطیہ بھی دیا مگرخاصے علاج معالجہ کے با وجود طارق جانبر نہ ہو سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا طارق کی وفات پر عرشی مفتی نے شو قچہ کے عنوان سے ایک تعزیتی کالم تحریر کیا جو نوائے تھل میں شا ئع ہوا ۔
خیر ذکر ہو رہا تھا کوٹ سلطان میں بیتے دنوں اور ان سے جڑی یادوں کا ۔۔تو جب مجھے اپنی پہلی کتاب کی ترتیب و تالیف کے لئے کراچی جانے کا اتفاق ہوا یہ سال1982-83کے دن تھے میں کراچی صدر کے ایک ہو ٹل میں مقیم تھا یہ علاقہ میرا دیکھا بھا لا تھا بر سوں قبل میں اسی علاقہ کے گلزار ریسٹورنٹ میں ہمہ قسمی مزدوری کر چکا تھا ۔ لیکن ان دنوں یہ ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا اس کراچی یاترا کے دوران میری ملا قات ایک دوست سے ہو ئی جو ہو میوپیتھک ڈاکٹر تھے انہیں جب میرے مو ضوع کا پتہ چلا کہ تو کہنے لگے کہ تم ہو میو پیتھ ڈاکٹر ز اور کالجز بارے بھی کچھ لکھو ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب جزل ضیاء الحق پا کستان کے صدر تھے جزل ضیا ء الحق ہو میو پیتھی طریق علاج کے بڑے مداح تھے شائد انہی کے دور میں پہلی بار کسی ہو میو پیتھ ڈاکٹر کو صدر پا کستان کا سرکاری معالج بھی مقرر کیا گیا تھا اور صدر پا کستان کے سرکاری معالج ہو نے کا یہ اعزاز اس وقت کے کراچی کے معروف ہو میو پیتھ ڈاکٹر اے ایم حمید کو حا صل ہوا ۔ ان کے نام سے مو سوم ادارہ پا کستان میں Schwabe Germany. کا مین ڈسٹری بیوٹرز ہے ۔ جس کا دفتر کراچی آرام باغ روڈ پر واقع ہے ۔صدر پا کستان نے ڈاکٹر اے ایم حمید کو ہو میو پیتھی کے میدان میں گران قدر خد مات انجام دینے پر تمغہ امتیاز بھی عطا کیا تھا۔
Homeopathy
ہومیو پیتھ ڈاکٹرز اور کالجز بارے سروے رپورٹ کے مرتب کرنے کا یہ مشورہ مجھے اچھا لگا اور میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملا تے ہو ئے ان سے مزید رہنما ئی چا ہی تو انہوں نے ڈاکٹر اے ایم حمید کا غائبا نہ تعارف کراتے ہو ئے کہا کہ ان سے ملتے ہیں وہ بڑے نا مور ہو میو پیتھ ڈاکٹر ہیں فا ئدہ ہو گا ۔ طے پا یا کہ اگلے روز ڈاکٹر صاحب کے آ فس میں جا کر ان سے ملاقات کی جا ئے پروگرام کے مطا بق ہم اگلے روز سہہ پہر ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں پہنچ گئے اور ایک کا غذ کی چٹ پر اپنا نام اور ملاقات کا مقصد لکھا اور استقبا لیہ پر دے دیا ۔ خا صی دیر بعد اذن باریابی ہوا ڈاکٹر صاحب بڑی محبت اور خلوص سے ملے یہ ملاقات ہمارے اندازے سے بر عکس خا صی طویل رہی ۔ پا کستان میں ہو میو پیتھی اور ہو میو پیتھ ڈاکٹر بارے ہمارا مو ضوع انہیں بہت اچھا لگا انہوں نے ہمیں پا کستان میں ہو پیتھی کے فروغ اور پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ہو نے والے ہو میو پیتھ کالجز بارے بھی تفصیل سے بتا یا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ لیہ میں کو ئی ہو میو پیتھ کالج نہیں ہے تو خا صے حیران ہو ئے انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم لیہ میں ہو میو پیتھک کالج قائم کریں ۔کہنے لگے کہ آپ اس مو ضوع پر کام شروع کرنے سے پہلے نیشنل کو نسل فار ہو میو پیتھک پا کستان کے آ فس میں خورشید صاحب سے مل لیں آپ کو صحیح را ہنمائی مل جا ئے گی ، ہم نے کہا ٹھیک اور اجازت لے کر واپس آ گئے۔
خورشید صاحب اس زما نے میں نیشنل کو نسل فار ہو میو پیتھک پا کستان میں کنٹرولر امتحانات کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس وقت تو ان سے ملاقات نہ کر سکے لیکن ان سے ہماری ملاقات غالبا 1986-87 میں ہو ئی جب ڈاکٹر فضل حق رضوی نے لیہ میں ہمارے مشورے پر تھل ہو میو پیتھک میڈ یکل کالج کی بنیاد رکھی ۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب پا کستانی اقلیتیں کی اشاعت کے بعد ہم ملتان میں اپنے قائم کئے گئے ادارہ تعارف کے آ فس کو کلوز کر کے ایک بار پھر وطن واپس آ چکے تھے ۔ بے روزگاری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اس پر یشان کن حالات میں ہمیں ڈاکٹر اے ایم حمید سے کراچی میں ہو نے والی ملاقات کی یاد آ ئی اور ہم نے سو چا کہ بے روزگاری کا بہترین علاج ہو میو پیتھک کالج کا قیام ہے کیوں نہ یہ تجربہ کیا جائے ۔ اس زما نے میں ملتان اور ڈی جی خان میں ہو میو پیتھ کالج بن چکے تھے ملتان سے میا نوالی تک کا علا قہ خالی تھا سو ہم نے لیہ میں ہو میو پیتھ کالج کے قیام بارے سنجیدہ کو ششوں کا آ غاز کر دیا۔۔۔۔ با قی اگلی قسط میں