تحریر: ع.م بدر سرحدی میرے سامنے یہ اہم سوال ،کیا کائینات کا خالق و مالک صرف ایک ہے …؟الہام کے دعویداروں کا اپنا اپنا ،اس کے علاوہ بھی جس سے عواممالناس آج بھی بے خبر ہیں ..وہ بھی کسی کو اپنا خالق و مالک مانتے ہیں آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ بنی اسرائیل دانشوروں اور محققین کے زیر بحث رہا ….یہ فکری بحث ہے کہ آج اسرائیل کا وجود عاملی امن اور تہذیبوں کی جنگ کا پیش خیمہ ہے اور کسی بھی وقت یہ لاوا ….. ”کیا فلسطین واقعی یہودیوں کا آبائی وطن ہے؟”اس عنوا ن سے ولید ملک کا مضمون روز نامہ نئی بات میںشائع ہوأ نظر سے گزرا لکھتے ہیں اب وقت آگیا دنیا کو بتایا جائے فلسطین ملعون یہودیوں کا وطن نہیں، (یعنی ولید ملک سے پہلے دنیا فلیسطین بارے قطعی لاعلم تھی..) اب ایسے لکھنے والے کے پاس اپنا کوئی وژن نہیں،ادھر اُدھر کچھ سنا اور پڑھا لکھ دیا ،(اب ایڈیٹر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ پڑھے، قرآن مجید میں اسرائیل کے انبیاء کے اسماء گرامی ،حضرت داؤد، سلیمان، زکریا اور یونس یہ یہودی النسل ہی سے حتیٰ کہ کلم تاللہ حضرت عیسیٰ المسیح بھی اسی یہودی قبیلہ سے تھے اور لکھنے والا انہیں ملعو ن لکھ رہا ہے مجھے یہ پڑھ کر اُسکی تعلیم اور تربیت پر افسوس ہوأ کہ وہ توریت کو ایک طرف رکھیں..۔
اُس نے قرآن مجید کی بھی توہین کی ،یہ بنی عبر یا بنی اسرائیل کی تاریخ ٥٠٥٠ برسوں پر محیط ہے اِس پر آج تک ہزاروں لوگوں نے تحقیق کی اس وقت دنیا کی ڈھائی ہزار سے زائد زبانوں میں تراجم موجود ہیں جو دنیا کی کثیر آبادی میں آٹھ ہزار قسم کے لوگ ہم وقت پڑھ رہے ہوتے ہیں …..)لکھتے ہیں بنی اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ خدا نے یہ ملک میراث میں انہیں دیا ،یہ اسی طرح باطل جیسے گورے فرنگیوں نے امریکہ کے مقامی ریڈ انڈین کو تباہ کرکے اسپر قبضہ کیا …..اسی پر بس نہیں لکھنے والے اسرائیلیوں کو ملعون بھی لکھتے ہیں ۔ ٧٠ ء میں آخری مرتبہ اسرائیل کے بقیہ کو تاراج کیا اور ہیکل سلیمانی کا نشان بھی مٹا دیا ،اور بعد آنے والے حملہ آور اس خطہ کے مالک بن گئے کہ اب یہاں ان کا کوئی حصہ نہیں پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یہودی کوئی قوم یا مذہب نہیں یہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ایک ہے..۔
Hazrat Yaqoob A.S
حضرت یعقوب ،جنکا نام اسرائیل بھی ہے اور یہ توریت یا تورہ میں تفصیل دیکھی جا سکتی…، اور قرآن کے مطابق بنی اسرائیل ہیں ناکہ یہودی ،اسرائیل کی تاریخ ٥٠٥٠،برسوں پر پھیلی ہوئی ……مگر پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیںکہ اسرائیلوں کے بارے کیا فرمایا گیا ۔سورة،فاتحہ یہ ترجمہ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، …. دکھاہم کو راہ سیدھی(٥)راہ اُن لوگوںکی کہ نعمت کی ہے تونے اُوپر ان کے( ٦)،…اگے سورہ البقرہ،آیت ،اے بنی اسرائیل یاد کرو نعمت میری وہ جو انعام کی میںنے اوپر تمہارے اور یہ کہ میں نے بزرگی دی تم کو اُوپرعالموںکے… (٤٧)، اور سائبان کیا ہم نے اوپر تمہارے بادل کو اور اتاراہم اوپر تمہارے من اور سلو یٰ کھاؤ پاکیزہ اس چیز سے کہ دیا ہے ہم نے تم کو اور نہ ظلم کیاانہوں نے ہم کو ولیکن تھے وہ جانوں اپنی کو ظلم کرتے..(٥٧)قرآن کریم سے یہ چند حوالے ہی کافی ،لکھنے حضرت یعقوب جنکا کانام اسرائل بھی انکاباپ حضرت اسحاق اور دادہ ابراہیم خلیل اللہ تھے،اسرائیل کے چوتھے بیٹے کا نام یہودہ تھا ،اور خدا کی طرف اس قبیلہ کو حاکمیت عطا کی گئی تھیِ مسیح عیسیٰ بھی اسی قبیلہ سے تھے ،قرآن میں دیگر انبیاء داؤد، سلیمان، زکریا، یونس، اور نام ہیں یہ سب یہودی قبیلہ ہی سے تھے ،لیکن انتھائی افسوس ہوتا ہے جب بھی کوئی بنی اسرائیل کو یا یہودیوں پر لکھتا ہے وہ یہودیوں کے لئے لفظ ملعون استعمال کرتا جس کا مطلب وہ قرآن مجید ہی سے لاعلم بلکہ یہ توہین قرآن بھی ہے روزنامہ نئی بات میں جب پڑھا ملعون یہودی تو …نئی بات میں اکثر اسرائیل ذیر بحث رہتا ہے.۔
یہی نہیں نوائے ووقت کی طیبہ ضیاء جو اب طیبہ ضیاء چیمہ امریکہ سے لکتی ہیں اسے یہ علم نہیں کہ طالمود،یا تلمود کون سی کتاب ہے ،اس نے ٢٠٠٥، جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے مصافحہ کیا تو اسنے طالمود نامی کتاب کو توریت کہا ، جو کچھ بھی لکھ سکتی اسرائیل کے خلاف لکھا… اب یہی نہیں ایڈیٹر کو بھی علم نہیں ہوتا ،وہ صرف نام دیکھتے ہیں،لکھا کیا ہے یہ ضروری نہیں کہ اُسے اشاعت سے پہلے پڑھا جائے ..،،بعض اہل علم و دانش قلم کی حرمت کے پیش نظر حقائق کو حقائق کی روشنی میں لکھتے ہیں،جیسے جناب حافظ تقی الد ین نے” پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور تحرکیں”کتاب لکھی یہ ایک ا چھی کاوش ، صفحہ ٥٨ پراسرائیل بارے لکھا کے موسیٰ بنی اسرائیل کو خفیہ طور پر مصر سے نکال کر لایا کہ فرعون انہیں جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا ، تو بھی وہ یہ نہیں کہہ پائے کہ موسیٰ نے فرعون کے دربار میں دس عظیم معجزات کئے تب اسرائیل کو اُسنے جانے کی اجازت دی اِس کی مزید تفصیل آگے آئے گی…..۔
Torah
اب آئیں توریت کی طررجوع کر کے معلوم کریں کہ یہ الکتاب جسکی صداقت کا ذکر قرآن مجید میںہے وہاں کیا مرقوم ہے توریت کی پہلی کتاب پیائش کے باب ٢٤ ،میں یہ زمانہ ٣٣،صدیاں قبل از مسیح جب حضرت ابراہیم خدا کے حکم کے مطابق اپنی زاد بوم سے نکل کر کنعان میں آ بسا کہ ان کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا تھا اور کنعان سرسبز و شاداب ملک تھا یہیں اس کا بیٹا اضحاق جوان ہوأ ،اور ابرہام نے اپنے معتمد نوکر کو پاس بلایا اور کہا قسم کھا کر عہد کر کہ اصحاق کے لئے توکسی کنعانی عورت کو بیاہ کر نہیں لائے گا ،بلکہ میرے خاندان سے لائے تب نوکر نے کہا اگر وہ نہ آنا چاہے تو ،ابرہام نے کہا تو قسم سے آزاد ہوگا ،نوکر تحفے تحائف لے کر اس کے خاندان میں نحرائم عراق میں ٹھیک مقام تک پہنچا کہ خدا نے اسکی راہنمائی کی یہاں پانی کی باؤلی پر ایک لڑکی کودیکھا معلوم ہوأ کہ یہ اضحاق کے ماموں کی بیٹی ہے اور نوکر اُس کے ساتھ ہی گھر گیا تحفے تحائف دئے اور اپنے مالک ابرہا م کا مدعا بیان کیا تو اسحاق کے ماموں لابن نے خوشی سے قبول کیا..۔
نوکر کے ساتھ نہ تو دولہا ،نہ بارات، بین باجے ،ابرہام کے نوکر نے کہا اب مجھے جانے دو ،انہوں کہا ہم لڑکی سے پوچھ لیتے ہیں کیا و ہ جا نے کے لئے تیار ہے جب لڑکی ربیقہ سے پوچھا کیا تو جانے کے لئے تیار ہے،اس نے ہاں کہی ، اُ س کے باپ اور بھائی نے برکت کی دعا دیکر اسے ابرہام کے نوکر کے ساتھ اضحاق کی بیوی ہونے کے رخصت کر دیا ،حضرت ابراہم کا بڑا بیٹا جو مصری ہاجرہ کے بطن سے تھا وہ پہلے ہی مشرق کی طر ف نکل گیا تھا ،ابرہام نے ایک اور بیوی کی جس کا نام قطُورہ تھا اُس سے بھی ،زمران،یقسان، مِدان ،ہُدان،اسباق،اور سوخ پیدا ہوئے لیکن کتاب آگے ان کے لئے بھی خاموش ہے ،یہاں اضحاق کے دو بیٹے عیسو اور یعقوب پیداہوئے عیسو شکاری تھا اور یعقوب چرواہا جب ،اضحاق بوڑھا ہو گیا بصارت بھی کم ہو گئی تو عیسو کو کہا عیسوبیٹے جنگل کو جا میرے لئے شکار کر کے لذیز کھانابنا کر لا کہ میں کھاکر تجھے برکت کی دعا دوںکہ میرا وقت قریب ….جاری۔