تحریر: سید توقیر زیدی پانامہ لیکس سے جو بحران پیدا ہوا اس نے پاکستان میں موجود محاذ آرائی کو یکایک تیز کر دیا ہے۔ اب شاید دو چار دن بات ٹھنڈی رہے کہ وزیر اعظم طبی معائنہ کے لئے لندن پہنچ چکے ہیں تو عمران خان بھی چندہ مہم کے لئے لندن ہی جائیں گے۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی وہیں تشریف فرما ہیں، عبدالرحمن ملک نے دوبئی میں بلاول بھٹو کو لیکس کے حوالے سے بریف کیا تو پھر لندن میں آصف علی زرداری کو بھی اپنے نیک مشورے دیئے۔
اب یہ معلوم نہیں کہ ان دونوں حضرات میں سے زیادہ ”ذہین” کون ہیں۔ اس صورت حال نے ملک کے اندر ماحول ذرا سا نرم کیا کہ پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بھی تا حکم ثانی ملتوی کر دیا گیا کہ حکومت نے جس مقصد کے لئے بلایا تھا وہ حاصل ہو گیا یہ الگ بات ہے کہ اس اجلاس کے دوران پانامہ لیکس کے اثرات مرتب ہوئے اور اراکین نے غبار نکالا پارلیمینٹ ہی وہ مقام ہے جہاں منتخب اراکین کو اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے اور یہ جمہوری عمل ہے بہتر تو یہ ہے کہ ساری توجہ پارلیمینٹ پر دی جائے۔ اجلاس میں دلچسپی لی جائے تو یہ زیادہ دن چلے اور مفید فیصلے بھی ہوں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بہر حال یہ سیزن بہت نیک ساعت والا ہے کہ عمران خان بھی ایوان میں تشریف لے گئے تھے ورنہ ان کو تو یہ پسند نہیں۔ اب جو صورت حال ہے اس میں تحریک انصاف اور چوہدری نثار علی خان براہ راست آمنے سامنے ہیں۔
Imran Khan
وزیر داخلہ سیاست دان ہیں راستہ رکھ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ڈی چوک میں تو جلسہ نہ کرنے دینے کا فیصلہ حتمی ہے۔ البتہ کسی ا ور جگہ جلسے کے حوالے سے وہ عمران خان یا تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ دوسری طرف عمران خان 26 اپریل کو یوم تاسیس کا جلسہ ایف 9 کے پارک میں کرنے کا اعلان کر چکے اور وہ وہیں جلسہ کرنے پر بضد ہیں چودھری نثار کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے رہنے والے پسند نہیں کرتے عمران خان کامرہ میں جلسہ کر لیں۔
یہ تنازعہ کوئی پہلی مرتبہ تو ہوا نہیں اس سے پہلے بھی کئی بار ٹکراؤ ہوا، اس لئے بہتر عمل یہ ہوگا کہ وزیر داخلہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے جلسوں کے لئے ایک مقام ہی طے کرا لیں تاکہ بار بار تنازعہ ہی پیدا نہ ہو، یہ بات بہر حال درست ہے کہ ڈی چوک یا رہائشی علاقے میں جلسے سے عوام پریشان ہوتے ہیں۔ ٹریفک اور تجارت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔جلسہ گاہ کا تعین صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ راولپنڈی، لاہور فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد اور کراچی جیسے دوسرے شہروں میں بھی ہونا چاہیے کہ جھگڑا نہ ہو۔ جلسے بھی ہوں، لوگوں کو علم بھی ہو اور وہ جلسے کے دوران اپنا انتظام کر لیں۔
Sheikh Rasheed
عام مظاہرین کے لئے بھی لندن کے ہائیڈ پارک میں سپیکرز کارنر کی طرح کا کوئی اہتمام ہونا چاہیے، جہاں لوگ دل کا غبار نکال لیا کریں، بات محاذ آرائی سے شروع ہوئی۔ بقول شیخ رشید یہ اب بڑھے گی اور عمران خان تو وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر چکے اور کہتے ہیں، رائے ونڈ جائیں گے۔ جاتی عمرہ کا گھیراؤ کریں گے ، اس مرتبہ پیچھے نہیں ہٹیں گے، عمران خان نے اس مرتبہ لفظ گھیراؤ استعمال کیا ورنہ ہوگا تو یہ دھرنا ہی۔ ابھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، یہ 24اپریل کے جلسے میں بتائی جائے گی۔ پھر کیا ہوگا یہ حالات اور ردعمل پر منحصر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، یہ بھی معلوم ہو ہی جائے گی۔
بہرحال حالات کے مطابق یہ محاذ آرائی بہتر نہیں، غور کی ضرورت ہے، سب کو سوچنا ہوگا!بلاول بھٹو زرداری کے لئے جو سیٹ اپ بنایا گیا تھا وہ نہیں چلا، مشیر اور استاد منہ دیکھتے رہ گئے اور بلاول کو سبق عبدالرحمن ملک ہی دے رہے ہیں۔ دوبئی میں بھی بلاول نے عبدالرحمن ملک کی ”دلنشیں” گفتگو سنی اور باپ سے رابطہ کیا، وہ اب بھی بہت فعال اپوزیشن اور ایک بڑی پیپلزپارٹی کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ بلاول بھی واضح کر چکے کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں دیکھنا چاہتے البتہ حکومت کے اقدامات مناسب نہیں، ان کا جواب دینا ضروری ہے چنانچہ اب وہ اسلام آباد والے گھر میں بیٹھ کر مشاورت کا عمل شروع کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں کہ استعفیٰ کے خلاف ، آئین کے تحفظ کے لئے عمل کریں گے تو ساتھ ہی حکومت پر تنقید بھی کریں گے، آنے والے دن ہنگامہ خیز ہیں۔