تحریر: سید توقیر زیدی پاکستان پیپلز پارٹی ہی نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے بھی تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کر دی اور ان سب جماعتوں نے بھی مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس کی قیادت میں تحقیقاتی کمشن بنایا جائے جو پانامہ لیکس میں آنے والے ناموں کے حوالے سے تحقیقات کرے اور جو ذمہ دار نکلیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پانامہ لیکس کے ذریعے ملک کے دو سو سے زیادہ افراد کے نام سامنے آئے ہیں جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنا کر ملک سے باہر سرمایہ کاری کی۔ ان میں وزیر اعظم محمد نوازشریف کے دونوں صاحبزادوں کے نام بھی آئے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور عبدالرحمن ملک کا نام بھی آ گیا۔ چنانچہ سیاسی ناموں کی وجہ سے ہنگامہ کھڑا ہو گیا، محترمہ دنیا میں نہیں محمد نوازشریف برسر اقتدار ہیں اس لئے ان کے خلاف محاذ کھل گیا۔
فرزند راولپنڈی شیخ رشید نے کہا تھا کہ 25 اپریل کے بعد بڑا زلزلہ آنے والا ہے تو اس کا علم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ٹیلیویڑن کے ذریعے قوم سے خطاب میں کئے گئے اعلان ہی سے ہو جاتا ہے کہ محترم شیخ رشید کیا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے جس دھرنے کا اعلان کیا اس کی کیا صورت ہو گی اور کب ہوگا اس کا علم 24 اپریل کو ان کے جلسہ یوم تاسیس سے ہوگا، کہ اس روز بھی محاذ آرائی کا خدشہ ہے۔ عمران خان نے جلسہ اسلام آباد میں کرنے کا اعلان کیا۔ وزیر داخلہ اجازت نہیں دے رہے۔ یوں یہ ایک محاذ آرائی کی نئی صورت ہے اور بقول شیخ رشید 25 اپریل والی ہے وہ پہلے ہی سے عمران کے پروگرام سے آگاہ تھے ۔
Imran Khan
ان کے خیال کے مطابق محاذ آرائی نہیں۔ ہنگامہ آرائی ہو گی اور حکومت غیر مستحکم ہو گی جبکہ وزیر اعظم نے جو مشاورت کی اس کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور حکومت شاید اب دباؤ سے نکلنے کی صورت نکالے گی۔ اور کسی تشدد کے بغیر سیاسی جواب دینے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی جو جلسوں کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔ بہر حال عمران خان کی تقریر دھمکی آمیز تھی اور مطالبات کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے حالانکہ تحقیقاتی کمشن میں انہوں نے اپنی بات چھوڑ کر سید خورشید شاہ کی تقلید کی اور چیف جسٹس والی تجویز کو مطالبہ بنا لیا ہے۔
تاہم یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو ملک کے اندر انتشار ہوگا۔ یوں بھی بڑی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی کی باری ہے جو پہلے ہی اپنے وجود کو برقرار اور سیاسی پوزیشن کی بحالی کے لئے جدوجہد کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صرف ان دو جماعتوں کا مسئلہ نہیں خود تحریک انصاف انتشار کا شکار ہے اور اس کے اندر بھی تقسیم نظر آ رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی خم ٹھونک کر شفقت محمود کی حمایت میں نکل آئے اور انہوں نے جہانگیر ترین اور چودھری سرور کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ شیریں مزاری نے بھی اس تقریب میں شفقت محمود کی حمایت کی یوں تقسیم اور اختلاف تو واضح ہیں اور شاید یہی وجہ ہو کہ عمران خان حکومت مخالف تحریک کے لئے نکل پڑے ہیں۔ کتنی پذیرائی ملتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔۔
Bilawal Bhutto Zardari
ایک خبر یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی حکومت کی مخالفت کا منصوبہ بنایا۔ بلاول بھٹو زرداری نے دبئی میں والد سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور مرکزی راہنماؤں کو اسلام آبد میں بلایا ہے کہ مشاورت ہو سکے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں بھی دباؤ میں ہے کہ پارلیمانی پارٹی میں اختلاف ہے اور بلاول اسے ختم نہیں کرا سکے اور اسی لئے دوبئی گئے کہ وہاں بیٹھ کر آصف علی زرداری سے ہدایات لے سکیں۔ شاید اسی دباؤ کی وجہ سے حکومت مخالف موقف زیادہ سخت کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی ویسے تو پیپلزپارٹی سیاسی اور جمہوری عدم استحکام کی حامی نہیں۔ البتہ یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ حکومت پیپلزپارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے ۔
پیپلزپارٹی کے مخالفین کی حمایت کرتی ہے۔ بلاول مشاورت کے بعد زیادہ سخت موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت کو انتقامی کارروائیوں سے روکا جا سکے۔یوں حالات کچھ بہتر نہیں۔ یہ نیا بحران ہے اس سے حکمرانوں کو پریشانی لاحق ہے اور وہ جواب دہی کے لئے مجبور ہیں کہ کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس سلسلے میں سنجیدہ فکر حضرات کو خود آگے بڑھ کر کوشش کرنا چاہئے کہ اندرون ملک سیاسی کشمکش نہ بڑھے اور جمہوری انداز میں عمل شروع ہے۔