نو سو چوہے’حج’ پر گئے

Rats

Rats

تحریر : میر شاہد حسین
سنا ہے جب سے چوہوں کے دام لگے ہیں، چوہوں نے بلوں میں پناہ لے لی ہے۔ لیکن کیا کریں ان کی خبریں وقت بے وقت پتا نہیں کیوں ‘لیک ‘ہو جاتی ہیں جبکہ ایک بھی چوہا کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا۔ چوہوں کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے، کھا کھا کر موٹے ہوئے جاتے ہیں لیکن کھانا پھر بھی نہیں چھوڑتے۔کچھ چوہے تو اتنا کھا جاتے ہیں کہ ان کا زمین پر آزادی سے چلنا پھرنا دوبھر ہو جاتا ہے اور نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ ان کا ملک سے باہر جانا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں باہر نکلنے کے لیے پتلا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ ان کو پکڑنے کے لیے کتنے بھی جتن کر لو، چاہے نیب لگا لو ۔ یہ کسی کے ہاتھ آسانی سے نہیں آتے۔

چوہوں کو پکڑنے یا ڈرانے کے لیے پہلے بلی کو گھر میں رکھا جاتا تھا لیکن آج کل چوہوں کو رکھا جاتا ہے۔ یہ پلے ہوئے چوہے بلی سے کسی طور کم دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے بلی بھی ان کے آگے دُم ہلاتے دکھائی دیتی ہے۔یہ چوہے اتنے تیز ہوگئے ہیں کہ ان کو مارنے کے لیے زہر بھی رکھا جائے تو یہ اسے منھ تک نہیں لگاتے ۔ بلکہ اکثر کھانے کو زہریلا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ پتا نہیں یہ چوہے جس تھیلی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کیوں کرتے ہیں۔

Cat Catch Rats

Cat Catch Rats

ایک روز بلی سے پوچھا گیا کہ وہ چوہے کیوں نہیں پکڑتی۔ کہنے لگی ہمیں چوہے پکڑنے کی کیا ضرورت ہے جب چوہوں کی طرف سے کھانے کو مل رہا ہے تو کیا ضرورت ہے ان کا نمک حرام کرنے کی۔ تو پھر اس سے مالک کا جو نمک حرام ہو رہا ہے بلکہ جینا حرام ہورہا ہے اس کا کیا؟ کہنے لگی مالک کے نمک پر بھی چوہوں کا قبضہ ہے ، جب مالک نے خود گھر کا کچن چوہوں کے حوالہ کررکھا ہو تو پھر ایسے میں بلی بیچاری کیا کرے؟ بھیگی بلی ہوگی تو کھمبا ہی نوچے گی۔

آج کل کے چوہے خود کو شیر سمجھتے اور کہتے بھی ہیں۔ بڑی دیدہ دلیری سے شہر کی سڑکوں پروی وی آئی پی پروٹوکول میں دندناتے پھرتے ہیں اور کسی کو اپنا دیدار بھی نہیں کراتے۔عوام سے ڈرتے ہیں بے چارے … آخر کو چوہے جو ہوئے۔انہیں تو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے لیکن کیا کریں… شیر ہوتے تو کب کے چڑیا گھر میں ہوتے لیکن اب یہ ٹھہرے چوہے ،بھلا چڑیا گھر میں ان کے لیے کوئی پنجرہ جو نہیں ہے، اسی لیے آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے خود ہی چڑیا گھر کی سیر کو چلے جاتے ہیں اور وہاں کی تازہ ہوا کھا کر پھر سے اپنے کاروبار پر واپس آ جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوتے ہیں۔اب بھلا قاضی جی ان چوہوں کو سبق تھوڑا ہی پڑھاتے ہیں اور پھر چوہے کیوں سبق لینے لگے، وہ توالٹا ہمیں سبق سکھاتے ہیں لیکن ہم ان سے سبق لینے کے لیے تیار نہیں۔ان سیانے چوہوں کی تلاش میں مدرسوں میں چھاپے بھی مارے گئے لیکن چوہے پھر بھی ہاتھ نہ آئے؟ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ قاضی جی کے چوہے نہیں پکڑے جاتے تو شاہ دولہ کے چوہے ہی پکڑ لیں …کم سے کم یہ تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے چوہے پکڑے ہیں۔
ایک چوہا کہتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں لیکن آج کل سنا ہے وہ چوہا ملک سے باہر بھاگا ہوا ہے۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

لوگ اسے بلا سمجھتے تھے لیکن وہ چوہا نکلا۔ اسے بلا سمجھ کر دودھ کی رکھوالی کے لیے رکھا گیا تھا لیکن اس نے سارے چوہوں کو ملاکر بھان متی کا کنبہ جوڑا اورسارا دودھ ان چوہوں کے حوالے کر دیا۔ اب وہ دودھ کے دھلے چوہے اپنی اپنی دُم چھپاتے پھر رہے ہیں۔بلی نے نو سو چوہے کھا کر حج پر جانا تھا لیکن اب نو سو چوہے حج پر جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا لیکن یہاں تو پہاڑ کے پہاڑ کھودنے کے بعد بھی چوہا نہیں نکلتا۔آج کل چوہے پہاڑوں میں نہیں رہتے بلکہ عالیشان محلات میں رہتے ہیں۔پاکستانی چوہوں کی دیدہ دلیری دیکھ کر بھارت سے بھی کچھ چوہے ادھر آنکلے تھے لیکن ایک چوہے کو پکڑا تو اس نے سب چوہوں کے نام اگل دیے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ چوہوں کی بھی حدود ہوتی ہیں اور اگر وہ حدود سے تجاوز کریں تو انہیں پکڑنا پڑتا ہے ورنہ طاعون جیسی موذی بیماری جنم لیتی ہے جس سے نجات بھی ممکن نہیں۔نو سو چوہے ملک کو کھانے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام ایک عرصہ سے یہ چوہے بلی کا کھیل دیکھ دیکھ کر بیزار آ چکی ہے۔اب وہ چاہتی ہے کہ یہ کھیل بند کیا جائے اور کوئی نیا کھیل شروع کیا جائے۔نیا کھیل شروع ہونے والا ہے ،دیکھتے رہیے کہیں مت جائیے گا…!!

Mir Shahid

Mir Shahid

تحریر : میر شاہد حسین