تحریر : محمد اشفاق راجا پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم نے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل انکوائری کمشن کے قیام کا اعلان کررکھا ہے جبکہ عمران خان اور حزب اختلاف کے کئی راہنماسپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں پر مشتمل انکوائری کمشن بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔قطع نظراس کے کہ ریٹائرڈ ججز کمشن کا حصہ بننے سے انکار اورچیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی عدلیہ کو اس معاملے سے الگ رکھنے کی بابت ریمارکس دے چکے ہیں ، پاناما لیکس کے سلسلے میں تحقیقات کے لئے انکوائری کمشن کی تشکیل کا امکان مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ انکوائری کمشن “پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956ئ “کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے اور اس قانون میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ انکوائری کمشن کاسپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے ججوں پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔
حکومت کسی بھی شخص یاگزٹیڈافسر کی سربراہی میں انکوائری کمشن قائم کرسکتی ہے ،انکوائری کمشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی کیا قانونی حیثیت ہے ، اس رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے اور کیا اس رپورٹ کی بنیاد پر کسی کو سزا دی جاسکتی ہے ؟قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی حیثیت ایک رائے اور سفارش کی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس میں قرار دیا جاچکا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔اسی عدالتی نظیر کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متعدد مقدمات میں جوڈیشل انکوائری کو گواہی کے طور پر قبول نہ کرنے کی بابت آبزرویشنز آچکی ہیں۔ قانون کے تحت جوڈیشل انکوائری کا مقصد غیر جانبداری کے ساتھ انتظامیہ کو مدد اور راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انتظامیہ اپنے لئے درست راستے کا تعین کرسکے۔
جوڈیشل کمیشن کوئی عدالت ہے اور نہ ہی وہ کوئی حکم جاری کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح کسی شخص کے خلاف رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد بھی ضروری نہیں ہے ،اس حوالے سے بھی عدالتی نظائر موجود ہیں جیسا کہ سانحہ گوجرہ کے حوالے سے مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن کی انکوائری رپورٹ میں اعلی پولیس افسر طاہر رضا کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی اور یہ رپورٹ ان کی کسی اعلی ٰ عہدہ پر تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ تھی تاہم اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدطاہر رضا کو سی سی پی او لاہور مقرر کردیا گیا تھا۔
Panama Leaks
پاناما لیکس کے حوالے سے چیف جسٹس کی سربراہی میں انکوائری کمشن کا مطالبہ کرنے والوں کو کمشن کی رپورٹ کے حوالے سے اس کی قانونی حیثیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے ،اس رپورٹ پر عمل درآمد کرنا یا نہ کرنا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے ،حکومت جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے سکتی ہے جیسا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کیا گیا تھا۔حکومت کے بزرجمہرتو سکینڈلز کو دبانے کے لئے انکوائری کمشن کی تشکیل کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے کمشن کی رپورٹ ایک مشاورتی دستاویز سے زیادہ کی قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔
جوڈیشل کمشن کے قیام کا مطالبہ کرنے والے سیاستدانوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انکوائری رپورٹ ان کی خواہشات کے برعکس آگئی تو پھر اس ایشو پر سیاست چمکانے کے لئے ان کے پاس کیا جواز باقی رہ جائے گا جیسا کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے جوڈیشل انکوائری میں ہوا تھا حالانکہ یہ جوڈیشل انکوائری کمشن ایک نیاقانون جاری کرکے قائم کیا گیا تھا اور یہ قانون تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا۔
قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی جو بھی حیثیت ہو اس سے قطع نظر اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار نہیں دیا جاسکتا اگر ایسا سمجھا گیا تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ایسی رپورٹوں کی باز گشت دہائیوں تک متعلقہ اشخاص کا پیچھا کرتی ہے جیسا کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ذکر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے بغیر ناکمل رہتا ہے اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر مختلف لوگوں یا اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔