تحریر: صہیب سلمان آ غا شورش یہ بھی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے ڈی آ ئی جی نے ایک دن مجھے کھانے پر بلایا میرا اُن سے پہلا تعارف تھا کہنے لگے کہ ایو ب خان نے کہا کہ مختلف واقفان حال سے پو چھا جائے کہ 1965ء کی جنگ کے بعد میر ی مقبو لیت میں کمی آنے کا سبب کیا ہے میں نے کہا میری طر ف سے لکھئے وہ مقبول ہی کب تھے کہ ا نہیں مقبو لیت میں کمی کا احساس ہوا۔گورنر موسیٰ تین دفعہ بلوا چکے تھے پہلی دفعہ مسعو دالرؤف ،دوسری دفعہ فیض الحسن ،تیسری دفعہ ان کے سیکرٹری نے فون کیا تھا کہ گورنر سے مل لو خلا صہ ان کی ملا قاتو ں کا یہ تھا کہ حکومت کے بارے میں نکتہ چینی پیھلتی جار ہی ہے اس میں حصہ نہ لوںوہ مجھے سمجھتے تھے کہ میرے قلم اور زبان دونوں گرم روح ہیں۔نواب زادہ نصر اللہ خان کے متعلق فر مایا کہ سیاست میں ان کے ہمسفر رہے ہو ان کو سمجھاؤ ،اپوزیشن کے میدان میں گلی ڈنڈا کھیلنے سے بہتر ہے کہ اپنے علاقے میں مل لگا لیںمیں نے کہا کہ نواب زادہ نصراللہ ایک غیرت مند آدمی ہیں وہ ملوں سے اپنے خیالات کا سودا نہیں کرتے ۔صدر ایوب نے مجھے دو دفعہ یاد کیا لیکن میں دو نوں دفعہ طرح دے گیا یعنی بہانہ بنا کر نہ گیا ۔
8مئی کی رات ڈیڑھ بجے پولیس نے مجھے گرفتار کیا ایک پک اپ میں سنوار کر کے ڈیرہ اسما عیل خان جیل میں لے آ ئے جیل کی گنتی بند ہوچکی تھی قائم مقام ڈ پٹی سپر نٹنڈنٹ مسڑ سعید اللہ خان رجسڑ وں پر د ستخط کررہاتھا ۔اُس نے کہا میں ڈ پٹی سپرنٹندنت ہو ں اور میں نے کہا میں شورش کشمیری ہوں،ڈ یو ڑ ھی کے زرا سا منے تین کو ٹھر یوں کا ایک بلاک تھا یہ تینو ں کو ٹھر یاں پھانسی کے دھرے سیل تھے ،پہلا حصہ چھت کے بغیر تھا جس میں کراس گیٹ تھا ۔ڈ پٹی نے مجھے پہلی کو ٹھری میں بند کردیا ،دوسری خالی تھی،تیسری میں ایک قبائلی علاقے کا معمر شخص بند تھانام اُس کا یاد نہیں رہا غازی غازی کہتے تھے اب تک دو مقد مات میں موت ک سزا پا چکاتھا تیسرا مقد مہ بھی قتل ہی کا تھا ۔انتہا ئی غضب ناک سپر نٹنڈنٹ ہو یا ڈ پٹی کمشزسب اس کی زبان سے ڈرتے تھے ک کچھ دن ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں رہا لیکن ڈیرہ کی جیل میں مجھے سہو لتیں نہیں دی جاتی تھیں اور میرے ساتھ جو سلوک کیا جاتا تھا وہ عام قیدی سے بھی بد تر تھا اس لئے میں نے حکومت سے استد عا کی مجھے لاہور کیمپ جیل میں منتقل کردیاجائے ۔تاکہ میری فیملی کے لوگ مجھ سے ملنے آ جایا کریں گے لیکن حکومت نے مجھے لاہور کی بجائے کراچی سنٹرل جیل بھیج د یا اور بی کلاس میں رکھا گیا ،بی کلاس میں قاسم بھی تھا جو پہلی د فعہ سکندرمرزا کے زوال پر سمگلنگ کے الزام میں پکٹرا گیا اب غنڈہ ایکٹ کے تحت ماخوذ تھا اس کے علاوہ کرا چی کے مشہور اہلِ فن کالاناگ اور شیرو بلوچ بھی اندرہی تھے۔کالاناگ تو جوں کا توں تھا لیکن شیرو نے داڑ ھی رکھ لی تھی اور ساتھ قرآن پاک حفظ پر زور دے رکھا تھا ،وہ قید یوں کو نماز پڑھاتا اور روزے رکھواتا تھا معلوم ہوا کہ مولانا احتشام الحق نے ان کی سر شت بدل دی تھی۔
Police in Rawalpindi
میر عبدالباقی بلوچ انہی د نوں لاہور سے کراچی آ گئے میں ان سے پہلے متعارف نہ تھا تقریباً دو سال سے نظر بند تھے وہ آئے تو ان سے تعارف ہو گیا وہ اپنا مقد مہ خود لڑتے تھے اور قانونی د ستور کے حافظ ہوگئے تھے اس کے علاوہ وہ بڑے ذہین اور سمجھدار اور سیاست مزاج دان تھے وہ بلو چستان اور سندھ کے الیکشن پر بٹرے کام کی باتیں کرتے وہ لاہور میں کئی گولیاںکھاکر بچ رہے تھے ،اُن کا بچنا ایک معجزہ تھا۔18 دسمبر کی صبح دن کے دس بجے تو ہین عدالت کا سا نحہ اور بنچ کی دستبرداری کا واقعہ ہو گیا میں نے اسی وقت بھوک ہڑ تال کا اعلان کردیا اگلی صبح حکومت کیطرف سے پیغام آیا کہ بھوک ہٹرتال چھوڑ دو رہا ہو جاؤ گے ۔میں نے کہا کہ مجھے حکومت پر کو ئی اعتبار نہیں وہ مجھے مارنے کے بہانے ڈ ھو نڈ ے رہے ہیں معاملہ صدر یا گورنر کے ہاتھ میں تھا سرحد سے لے کر سندہ تک مطا لبہ شروع ہوگیا کہ شورش کا شمیری کو رہا کرو ،اُ دھر اپو زیشن کا شعلہ بھڑک اُٹھا پشاور جلسے پر ہاشم نامی نو جوان نے صدر گولی چلاکر حکومت کو لرزہ دیا تھا۔ایک طالب علم راولپنڈی میں پولیس فائرنگ سے شہید ہوچکا تھا مسڑ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعض ساتھی پکڑے جا چکے تھے اپوزیشن کی تمام جماعتوں متحد ہوکر طبل جنگ بجادیا دن رات ایوب خان کیخلاف مظاہرے ہو نے لگے میرا معاملہ حکومت کیلئے نظر انداز کرنے کی چیز نہ تھا ۔
مولانا احتشام الحق اور مولانا یوسف تنوری نے عید کی نماز میں میرے لئے دُعا کروائی ،مولانا انور ہر جمعہ میں میرے لئے دُعا کرواتے تھے حالات کے پیش نظر چیف سیکرٹری نے تجویزکی ہے کہ حالات کے پیش نظر مجھے رہا کردیا جائے گورنر نے چیف سیکرٹری کے نوٹ پر الفا ظ ذیل لکھ کر فائل واپس کردی مقامی اخبارات نے میری حالت کی خبریں بڑی دلیری سے دینی شروع کردیں۔میری بیوی اور بیٹیوں نے خاندان کی دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر گورنر ہاؤس پر صبح سویرے چڑ ہائی کردی اور مال روڈ کے صدر دروازے پر زبر دست مظاہرا کیا۔وہ یہ کہہ رہیں تھیں کہ گورنر موسیٰ تو اپنے بچوں کے ساتھ عید منارہے ہیں جب کہ ہمارا باپ قیدوبند ہے ،پولیس کا رویہ میری فیملی کیساتھ شریفانہ تھا ۔صبح آٹھ یا نو بجے سید خالد محمود ڈپٹی کمشنر ،چوہدری نذیر احمد سپرنٹنڈنٹ جیل اور پروفیسر افتخار احمدآگئے ۔ چوہدری نذیر یا پروفیسر افتخار نے مجھے جگایا مجھ پر غنودگی چھائی ہوئی تھی ۔پروفیسر افتخار نے گورنر کو فون کیا کہ شورش کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے لہذا اسے رہا کردیا جائے اس میں ہی عافیت ہے گورنر موسیٰ نے کہا کہ میں صدر سے بات کرکے آپ کو بتاتاہوں اور کچھ دیر بعد پھر پروفیسر افتخار نے فون کیا تو گورنر صاحب نے کہا کہ فوراً میرے پاس چلے آئیں۔ہوم سیکرٹری کے دستخطوں کے بعد گورنر موسیٰ نے بھی دستخط کردئیے اور یوں مجھے 25 دسمبر کو رہائی مل گئی۔(اور یہ تھا موت سے واپسی کا سفرنامہ ۔۔۔ ختم شُد)