تحریر : عماد ظفر لفظ “غیرت” کی مانند ہمارے ہاں دوسرا زبان زد عام لفظ “بےحیائی ” ہے. جب دیکھئے معاشرے میں بے حیائی کا رونا دھونا مچایا جا رہا ہوتا ہے.ہماری غیرت کی اصطلاح کی مانند یہ “بےحیائی ” کی اصطلاح بھی جھوٹ منافقت اور فرسودہ خیالات پر مبنی دکھائی دیتی ہے. بے حیائی سے عمومی طور پر مراد ہمارے ہاں خواتین کا اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا تصور ہے.مثال کے طور پر ایک خاتون اپنے بال کٹوا کر چھوٹے کرے گی تو وہ بے حیا کہلائے گی.جینز پہنے گی تو بے حیا کسی سے محبت کر بیٹھے گی تو بے حیا.غرض بے حیائی کی تمام تانیں ہمارے معاشرے میں عورت پر آ کر ٹوٹتی ہیں.گذشتہ دنوں لاہور میں بچیوں نے “ایام ہیض”سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے “پیڈز” کا سہارا لیتے ہوئے ان پیڈز پر مختلف عبارات لکھ کر اپنی جنسی پیچیدگیوں ،مسائل اور سماجی رویوں سے متعلق سوالات کیا کھڑے کیئے گویا پورے ملک میں کہرام برپا ہو گیا۔
بے حیائی کا طعنہ دے کر بچیوں کو پھر سے اپنی جبلتوں کو مارنے اور مسائل کو مزید پیچیدہ کر کے اپنے آپ کو مارنے کا درس دیا جانے لگا. دین کے ٹھیکیداروں کو مذہب خطرے میں محسوس ہونے لگا جبکہ معاشرے کو پھر سے احساس ہوا کہ یہ تو “بے حیائی ” ہے. جس معاشرے میں ہر گلی اور ہر شہر کی دیواریں مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہارات اور شہوانی لذت حاصل کرنے کیلئے مختلف حکیمی نسخوں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہوں وہاں عورت کے جنسی مسائل پر بات کیوں نہیں ہو سکتی فہم سے بالاتر ہے.ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی مردانگی کو عورت کی کمزوری سے مشروط رکھتے ہیں اور جونہی کہیں عورت ہمیں اپنے سے مضبوط یا طاقتور دکھائی دے تو فورا دین یا روایات کا لبادہ اوڑھ کر اپنی مردانہ کمزوری کا علاج ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
یہ حاکم محکوم کا خود ساختہ رشتہ جو ہم نے اس سماج میں عورت اور مرد کے مابین قائم کر رکھا ہے دراصل اس میں اب دڑاڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں. کیونکہ اب بچیاں باندیاں بن کر جینے سے انکار کر رہی ہیں.انہیں اپنے وجود کی اہمیت اور قدرومنزلت کا نجوبی اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے.دوسری جانب معاشرے میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی کو قدامت پسندوں اور روایات کے علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کو ہرگز بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہی.اس لیئے “بے حیائی ” کی گردان الاپ کر مردوں کا تسلط قائم رکھنے کی اور عورتوں کو لونڈیاں تصور کرنے کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے. اگر خواتین کا اپنے جنسی مسائل پر گفتگو کرنا بے حیائی ہے تو پھر مردوں کا جنسی معاملات پر کھلے عام اشتہارات دینا کیا ہے؟ ایک ایک گھنٹے کے ٹاک شوز لونڈیاں رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں جیسے موضوعات پر منعقد کرنا کون سی حیا ہے۔
TV
کیبل ٹی وی ریڈیو پر پروگرامز اور اخبارات میں لمبے چوڑے اشتہارات کے زریعے مردوں کے عضو تناسل کو مضبوط و توانا رکھنے کے اشتہارات کونسی حیا کے زمرے میں آتے ہیں؟ شادی کیلئے جہیز سے لیکر گاڑی کی خواہشات کا اظہار کون سی حیا ہے؟ بیوی کو گھر میں پردے کی اہمیت پر گھنٹوں لیکچر دے کر خود پرائی خواتین کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنا کہاں کی حیا ہے؟ بہن کو گھر میں رہنے اور موبائل اور انٹرنیٹ استعمال نہ کرنے کی تلقین کرتے رہ کر خود فیس بک پر دوسری لڑکیوں کی آئی ڈیز پر چھچورے قسم کے پیغامات بھیجنا اور ان کے نمبر مانگنا کیا حیا ہے؟ سنی لیون اور قندیل بلوچ کی تصاویر اور وڈیوز کو جنسی بھیڑیوں کی طرح کمپیوٹر کی سکرین میں ہی کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا کیا حیا ہوتی ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پروردگار عالم میرے اور آپ کیلئے اخلاقیات کے اور معیار بنائے اور خواتین کیلئے اور. یہ ہمارے معاشرے کا کھوکھلا رویہ ہے جو ایسی منافقت اور کمزوری کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو بے حیا وہ ہے جو جعلی ادوایات بیچتا ہے جو دودھ میں پانی ملاتا ہے جو دو نمبر چوری شدہ یا سمگلنگ کے زریعے برآمد شدہ موبائل فون بیچتا ہے. جو ذخیرہ اندوزی کرنے سے لیکر جعلی اشیائے خوردونوش بیچتا ہے جو ناپ تول میں کمی کرتا ہے جو سرکاری یا نجی ملازمت میں مالی یا اخلاقی کرپشن کرتا ہے جو کاروبار میں دھوکہ دہی کرتا ہے. بے حیائی یہ بھی ہے کہ اپنی شہوانی لذتوں کی تکمیل یا حصول کیلئے صرف مذہب کی ان باتوں کو دلیل بنایا جائے جو ان خواہشات پر پورا اترتی ہیں اور ویسے روز مرہ معملات زندگی میں مذہب کی تعلیمات سے منہ موڑ کر جیا جائے۔
بے حیائی یہ بھی ہے کہ گھنٹوں ناف سے نیچے ناڑا باندھنے کے موضوعات پر مناظرے کیئے جائیں لیکن خواتین پر تشدد یا ان سے جنسی و اخلاقی زیادتی کے موضوعات کو وطن دشمنی اور مذہب دشمنی قرار دیکر ان جرائم سے چشم پوشی اختیار کی جائے. بے حیائی یہ بھی ہے کہ مباشرت کے موضوعات پر ہزارہا کتب لکھی جائیں اور ان کے پڑھنے والے قارئین کی تعداد لاتعداد ہو لیکن سیکس کو نظام تعلیم میں بطور سبجیکٹ کے نافذ کرنے کے خلاف نعرے لگائے جائیں۔
Computer
بے حیائی یہ بھی ہے کہ نجی محفلوں میں مجرا بھی دیکھا جائے کوٹھوں پر سیکس ورکر سے لذت بھی حاصل کی جائے یا انٹرنیٹ کمپیوٹر اور ڈی وی ڈیز پر بلیو فلمیں دیکھنے کے بعد دوسروں کو پردہ اور حیا کی اہمیت پر لیکچر دیئے جائیں. بے حیائی یہ بھی ہے کہ بچیوں کو سکول کالج یونیورسٹیوں یا دفاتر میں جاتے ہوئے طنز و تنقید کا نشانہ بنا کر انہیں بے حیا کہا جائے اور پھر خود انہی تعلیم یافتہ خواتین سے اپنے بچوں کی شادی کا ارمان بھی رکھا جائے. ٹھیک جیسے ہمیں لفظ “غیرت” کی تشریح دوبارہ کرنے کی ازسر نو ضرورت ہے ویسے ہی لفظ “بے حیائی ” بھی ہماری توجہ اور اپنی تشریح کا شدت سے طالب ہے۔
اگر تو اس لفظ کو بھی “قومی وقار” اور “غیرت” کی مانند اپنے اپنے تعصب کی عینک لگا کر دیکھنا ہے تو پھر اس لفظ “بے حیائی ” کے معنوں میں ہمیں حسب ضرورت” اور “حسب مفاد” کے دو الفاظ لکھ دینا چائیں. بچیوں کی جسمانی بلوغت اور جنسی مسائل پر بات کرنے سے جس معاشرے کو معاشرتی اقدار کمزور ہوتی دکھائی دیں وہ معاشرہ واقعی میں “کمزوریوں ” کا شکار ہے. ان”کمزوریوں ” کی نوعیت “مردانہ” بھی ہے اور “بچگانہ ” بھی۔
یہی وجہ ہے کہ انہی دونوں کمزوریوں سے متعلق اشتہارات کی تعداد اور ان کمزوریوں کے علاج سے کمائی جانے والی رقم کسی بھی قسم کے دوسرے اشتہارات اور علاج کی بہ نسبت زیادہ ہے۔