تحریر: سید توقیر زیدی کرپشن کے خاتمے کے لئے باکرداروں کے کسی انقلاب کی گھسی پٹی فلم کی دوبارہ کامیاب نمائش کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر بعض فرشتے یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے اوپر لگنے والے تمام تر الزامات کے باوجود اخلاقی اور سیاسی طور پر کرپٹ نہیں ہیں تو پھر وہ اگلے انتخابات کا انتظار کریں۔ اگر عوام نے ان پر اعتماد کیا تو پھر انہیں اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور رہ گئے ہم جیسے آئین ، جمہوریت اور سسٹم کے تسلسل کے حامیوں کا معاملہ، کیا دلچسپ نہیں ہوگا کہ پھر ہم آپ کے حق حکمرانی کی خاطر آپ کے مخالفوں سے گالیاں کھا رہے ہوں گے۔
اے جعلی انقلابی فرشتو ،ہمیں خوب گالیاں دو، اپنے سے کم تر ، کم عقل اور جاہل بھی سمجھومگر اسی تکبر اور غرور سے بھرے ہوئے ذہنوں کے ساتھ صرف اتنا بتا دوکہ ابلیس کیوں راندہ درگاہ ہوا تھا اور خوارجیوں کو ہمارے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں خطرہ قرار دیا تھا ، میرے معاشرے میں اس وقت تمہارا سٹیٹس ان دونوں سے کس طرح جدا ہے؟المیہ ہے کہ جعلی فرشتوں کے دو نمبر انقلاب کے تصور کی جب بھی مخالفت کی جائے تووہ کرپٹ اور جاہل ہونے کا الزام دھر دیتے ہیں۔ ہماری پانچ ، سات عشروں کی تاریخ ایسے کئی انقلابوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں اہل نظر اور اہل دل جب بھی پڑھتے اور سوچتے ہیں، سر پکڑ کے روتے ہیں، پہلے انقلاب میں محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت کو بھی مسترد کر دیا، بدبخت انقلابی کتے کے گلے میں لالٹین پہنا کے گھماتے اور خود کو آسمانی فرشتے اور حب الوطنی کی آخری تعریف سمجھتے رہے۔
اس انقلاب نے اپنے اندر سے ہی یحییٰ خان جیسے شخص کی عورتوں کو دیکھ کے رال ٹپکاتے انقلاب کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ پاکستان کے دوٹکڑے کرنے کا سانحہ بھی کر ڈالا۔ دوسرا انقلاب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انتخابی دھاندلی کے الزامات کے بعد چلنے والی تحریک کی کوکھ سے نمودار ہوا۔ انقلاب کے نیکو کار داعی بعد میں کتابیں لکھ لکھ کے ثابت کر تے رہے کہ وہ تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ چکے تھے مگر انقلاب نے کسی ایک کی نہ سنی۔ اسی انقلاب کو امریکہ سے جائزیت اس وقت ملی جب پوری قوم ایک پراکسی وار میں الجھا دی گئی، انقلابیوں کے لئے امریکہ سے انقلاب کی جائزیت کوئی چھوٹی چیز نہیں ہوتی، یہ نہ ملے تو وہ فرینڈز ناٹ ماسٹرز جیسی کتاب بھی لکھ سکتے ہیں، اپنی قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن اورمہا جرکلچر بھی دے سکتے ہیں،اس انقلاب کی قیمت آج تک ادا کی جار ہی ہے۔ہم وہ معاشرہ ہیں جس نے ایک ایسا انقلاب بھی برپا ہوتے دیکھا جس کے جواز میں صرف اور صرف عہدہ تھا اور اس نے بھی وہی کچھ کیا جو اس سے پہلے کے انقلابی کر چکے تھے۔
NRO
امریکہ کی لڑائی میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردارادا کیا کہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ ہردور میں انقلابوں کے حامی فرشتوں کوصرف جمہوری اور سیاسی حکمران ہی شیطان نظر آئے۔ہر انقلابی کے پاس ایک ہی نعرہ رہا کہ سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں اور وہ کرپشن کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ کرپشن تو ختم نہ ہوئی مگر جمہوریت ختم ہوتی رہی۔بتا دیں، پاکستان میں کون کرپٹ نہیں ہے،جی ہاں، آپ کے پاس این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بھی ہو گی اور اب پانامہ لیکس بھی موجود ہیں، کیا آپ نے اس فہرست میں سیاستدانوں کے علاوہ باقی لوگوں کے نام بھی پڑھے ہیں اور اگر پڑھے ہیں تو کیا انقلابیوں کو ان کی کرپشن کی دہائی دیتے ہوئے بھی سنا ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ ہرگز نہیں سنا ہو گا کیونکہ انقلابی صرف آئینی سیٹ اپ اور جمہوری حکومت کے خلاف ہیں، وہ کرپشن کے خلاف نہیں ہیں، وہ صرف وزیراعظم کے خلاف تحقیقات چاہتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم پر الزامات کی صورت میں سیاست اور نظام دونوں غیر مستحکم ہوں گے، اگر وہ کرپشن کے خلاف ہوتے تو پھر وہ صرف وزیراعظم نہیں بلکہ تمام ناموں کے خلاف تحقیقات کی بات کرتے۔
مستقبل میں ایسے نظام کو بنانے کی بات کرتے جو پاکستان سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کر سکے مگر انقلابی صرف اور صرف رائے ونڈ کا محاصرہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی نظر میں اپنے ہم جنسوں، سیاست دانوں کی مٹی پلید کرنا ہی اہم ہے۔ آپ کہتے رہیں کہ لفافہ لے لیا، نمک کا حق ادا کر دیا، الزامات ضرور لگائیں اوربار بار لگائیں، ان الزامات پربحث کو اللہ کی عدالت لگنے تک چھوڑ دیتے ہیں۔ جھوٹوں کے لئے صرف دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی ناکامی اور رسوائی پر اتفاق کر لیتے ہیں، اس بحث میں کیا وضاحتیں پیش کرنا مگر ایک بات تو تاریخی طور پر طے ہے کہ ہم نے ہر دور میں ایسے ہی الزامات اور ایسی ہی تحریکوں کے ذریعے سیاستدانوں کو ڈس کریڈٹ کیا اورجمہوری نظام کو لپیٹا ہے۔
اس وقت خدا کا شکرادا کرنا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب کی ہمت رکھنے والا جرنیل اقتدار کا بھوکا نہیں ہے ورنہ کچھ لوگوں نے تو برس ، دو برس پہلے انتخابی اصلاحات کے مطالبے پر ایک اور انقلاب کی راہ پوری طرح ہموار کر دی تھی، میرا سوال ہے کہ اگر وہ لوگ واقعی انتخابات کے فری اینڈ فئیر انعقاد کے اتنے ہی دیوانے تھے تو اپنے دھرنے کے بعد انہوں نے کس جگہ پر اور کتنی مرتبہ انتخابی اصلاحات کے لئے آوازاٹھائی؟ یقین ہے کہ اس وقت بھی اصل مطالبہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات اور اس کی بنیاد پر اصلاحات نہیں تھا بلکہ حکمرانوں کا استعفیٰ تھا، پہلے ہی کہہ دیا ، اب بھی کرپشن کا خاتمہ مطالبہ ہے اور نہ ہی خواہش! چلیں۔۔! تفتیش سے پہلے ہی مان لیتے ہیں کہ حکمران کرپٹ ہیں مگر وہ پچھلے دو، تین برسوں سے بہت محنت کے ساتھ جس تبدیلی کی راہ ہموار کرنا چاہ رہے ہیں وہ بھی تو ایسی ہی ایک تبدیلی کی پیداوار ہیں۔ایوب خان کی تبدیلی کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا، ضیاء الحق کی تبدیلی نواز شریف کا تحفہ دے گئی۔
Imran Khan
مشرف کے بچونگڑوں نے عمران خان کو قائد بنا دیا، اب اگر ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے تو پھر ہمیں ایک اور بھٹو، ایک اور نواز شریف اور ایک اور عمران خان مل سکتا ہے تو پھر پہلوں میں کیا خامی او رکیا برائی ہے۔ پہلوں کے پیٹ تو کچھ بھر چکے ہوں گے مگر نئے خالی پیٹوں کے ساتھ آئیں گے لہذا کیا ہی بہتر ہو کہ افراد پر غل غپاڑہ مچانے کی بجائے نظام کی درستگی اور پختگی پر کام کیا جائے، اسے کرپشن پروف بنا دیا جائے۔ مہذب ، جدید اور جمہوری ممالک میں ہر تبدیلی اور ہر انقلاب بیلٹ باکس سے نکلتا ہے۔دنیا بھر کے مہذب ممالک میں آئین اور جمہوری نظام کی حمایت کرنے والے ہی حق پرست کہلاتے ہیں مگر یہاں معاملہ الٹا ہے، یہاں ناکام سیاستدانوں اور جھوٹے انقلابوں کی حمایت میں گالی گلوچ سے بڑی حق گوئی کوئی نہیں، ہاں ، ہاں، اگر آپ انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کے حق حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں تو آپ لفافے لیتے ہیں، آپ حکمرانوں کی نمک خواری کرتے ہیں۔ دوسروں پر الزام لگانے والے کون سے آج ہی پیدا ہوئے ہیں کہ ان کا کوئی ماضی نہیں۔
ان پر کوئی الزام نہیں۔ جب ہمارے ارد گرد سب کرپٹ ہیں، میں بھی کرپٹ ہوں، آپ بھی کرپٹ ہیں توپھر ہمیں اپنے اندر سے ہی کسی کو حکمرانی کا حق دینا ہو گا اور جب یہ حق کسی کو عطا کر دیا توپھر ہمارا فرض ہوگا کہ اس حق کی حفاظت بھی کریں۔ کیا یہ عجب بات نہیں کہ جس پارٹی پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات عائد کئے گئے، انقلابی اسی سے رائے ونڈ کے محاصرے میں شریک ہونے کی درخواست کرتے رہے جو مسترد کر دی گئی۔ جعلی انقلاب کے داعی یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اصلی انقلاب تو خون بہاتے ہیں، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرتے ہیں ، کیا ابھی ہمیں مزید خون بہانے کی ضرورت ہے؟ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق برداشت کرنے اور اپنے فرائض پہچاننے کی ضرورت ہے۔ یہی نواز شریف جو آج آئین اور جمہوریت کے نام پر حمایت پا رہے ہیں، انہوں نے میری آخری بات جو تحمل کے ساتھ سنی تھی وہ یہی تھی کہ آپ پیپلزپارٹی کے حق حکمرانی کو چیلنج نہ کریں،اسے مدت پوری کرنے دیں، انہیں بھی یہ بات بہت ناگوار گزری تھی۔
پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی محاذ پر شدید مسائل سے دوچار ہے۔ارض پاک کسی بھی صورت بدامنی اور انارکی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔عمران کے بے وقت احتجاج سے ملک کے اند ر بے چینی کو فروغ ملے گا۔ہم سمجھتے ہیں عمران خان اور دیگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو صبروتحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے 2018 ء کے عام انتخابات تک انتظار کرنا چاہیے۔سیاسی محاذ آرائی سے ملک وقوم کا بہت زیادہ نقصاں ہوگا۔دعا ہے ا ﷲتعالیٰ ہمارے لیڈروں کے اندر ملک کا درد پیدا کرے ۔آمین۔