ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
حبیب جالب کا شعر ہے حبیب جالب نے جو انقلابی گیت لکھے وہ اب کچھ اور ہی کام کے لئے استعمال ہو رہے ہیں خیر تبدیلی و انقلاب شاعری میں تو زندہ ہے۔ قارئین میں آج آپکو بتانے کی کوشش کروں گا کہ ہمارے نظام اور معاشرے کے بگاڑ کی وجوہات اور ساتھ ہی حقیقی تبدیلی کے بارے آگاہ کروں گا اور بتائوں گا کہ تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ قارئین دین سے دوری ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا اور ہو رہا ہے ہمارا نظام مفلوج ہے ہمارے حکمران و عوام دھوکے باز کرپٹ ہیں۔
دوستو آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ دین کا تبدیلی سے کیا تعلق ہے۔بہت گہرا تعلق ہے ہمارا دین اسلام زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور آج ہم اپنے دین کے راہنما اصولوں کو ہی بھول چکے ہیں اور غیر مذاہب قومیں اور وطن ہمارے دین کے اصولوں کو لے کر دن رات ترقی کی طرف گامزن ہیں۔حقیقی تبدیلی ان میں آئی ہے۔ جنہوں نے اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے اسلام کے راہنما اصولوں کو اپنایا ۔ دوستوں نہ تو میں کو ئی عالم ہوں نہ ہی کوئی مولوی البتہ میرا دل کہتا ہے۔ کہ تبدیلی کا واسطہ دین سے ہے۔ اگر ہم دین اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو ہمارا معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے اسکی دو چھوٹی مثالیں جھوٹ سے اور سود سے اجتناب فرق واضح نظر آئے گا۔
دین اسلام کا تبدیلی سے کیا لنک و ہ بھی تفصیل میںپھر کبھی لکھوں گا۔ غربت بھی ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔جو ہمارے معاشرے کی بگھاڑ میں شامل ہے۔ غربت کی وجہ سے جرائم میں اصافہ ہو رہا ہے اور ہو چکا ہے۔غربت کا ڈائریکٹ لنک کرپشن سے ہے۔اور کرپشن سے غربت اور پھر غربت سے مزید جرائم دہشت گردی قتل و غارت چوری ڈکیٹی اور ایسے بہت سے جرائم اور بھی ایسے مزید فیکٹر ہبں جو معاشرے کی تبدیلی میں رکاوٹ ہیں لیکن دہرا معیار ڈیول پالیسی یعنی امیروغریب کا فرق اور جاگیردار نہ نظام خاندانی سیاست اور اعلی عہدوں پر لالچی اور چوروں ڈاکوئوں کا قبضہ اسے یہ کہنا بجا ہو گاکہ سارے فیکٹرز کی جڑ ہیں یہ۔ میں نے بارہا سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان کا موجودہ نظام تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
Corruption
پورا کا پورا نظام ایسے نظام کا کیا فائدہ جہاں قانون تو ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں اور نہ ہی قانون کی پاسداری جہاں انصاف نہیں مجھے تو بھکائو لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جب میں انکے بارے میں سوچتا ہوں کہ ان لوگوں نے اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کرایمانداری کا حلف اٹھایا ہے کیا ایسے حلف کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا ہے یہ سب اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد بھی جہالت؟ ہم نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا کہاں ہیںاسلامی قوانین ؟اگر ہیں تو پاسداری کیوں نہیں؟ کیا ہمیں اللہ تعا لی کے سامنے پیش ہونے کا کوئی خوف نہیں ایسے نظام کا کیا فائدہ جہاں غریب۔ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
امیر۔ امیر سے امیر تر قسم سے کبھی کبھی دل چاہتا ہے ایسے نظام کو ہی آگ لگا دوں نہ تو ہم ایسا کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ اس کا حل ہے اصلی حل تو زہن کی تبدیلی ہے۔زہن دل و دماغ نیز اپنی آنکھوں کانوں اور ہاتھوں اپنے جسم کے ہر اعضاء کو اسلام کے مطابق استعمال کرو پہلے اپنے اندر تبدیلی لائو اپنے اندر انقلاب لائو اپنا زہن تبدیل کرو۔جتنا ہمارا نظام بگھڑ چکا ہے اس میں تبدیلی لانے کے لئے کافی عرصہ لگ سکتا ہے اگر ہم کہیں کہ آلہ دین کا چراغ لا کر فٹا فٹ ہی سب کچھ تبدیل کر دیں گے تو یہ جھوٹ ہے۔
میں بتاتا جائوں کے بڑے بڑے تبدیلی کے دعویدار بھی جھوٹے ہیں اس وطن میں سب پنجابی والے (دا) یعنی دائو پر بیٹھے ہوتے ہیں کب انہیں بھی لوٹنے کا موقع ملے۔آخری کالم میں بھی میں الیکشن کمیشن سے مخاطب ہوا تھا پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں خدارا اپنے ہونے کا کچھ ثبوت پیش کریں اور آئندہ انتخابات سے پہلے ہی کوئی ایسی پالیسی تشکیل دیں جس سے کرپٹ لوگ ہمیشہ کے لئے نا اہل ثابت ہو جائیں ایسا نظام اور پالیسی بنائیں کہ اسلحہ اور روپے کی طاقت کا استعمال الیکشنز میں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے ایسی پالیسی ہو کہ غریب اور ایماندار لوگ بھی سامنے آ سکیں۔
Pakistan
اگر ایسا ہو جائے تو زندگی بھر کے لئے لو گ آپ کو دعائیں دیں گے اور اللہ بھی اسکا اجر دے گا۔میری قومی اسمبلی کے تمام ممبران اور سینٹ کے تمام ممبران سے گزارش ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے یہ بل پاس کیا جائے کہ وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے لئے پی ایچ ڈی و ایم فل کی ڈگری اور تعلیم والے شخص ہی اپنے کاغذات جمع کرواسکیں قومی اسمبلی وزیر مطلوبہ وزارت میں ماسٹرو ایم اے تک تعلیم یافتہ ہوں۔
ایم این ایز وایم پی ایز بھی کم از کم ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں اور ناظم ونائب ناظم بی اے اور جنرل کونسلر ایف اے تک تعلیم یافتہ ہوں اور عہدوں کے حساب سے نیٹ گیٹ سیٹ وغیرہ کے ٹیسٹ ہوں جن میں پاس ہونا لازمی ورنہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔میں جانتا ہو ں کہ ایسا ہونے نہیں دیں گے کیوں کہ یہ تبدیلی چاہتے ہی نہیں انکا لالچ معاشر کو ختم کر کے ہی دم لے گا۔
موجودہ پاکستان کے نظام میں صاف ستھرے سیاسی نمائندوں اور لیڈروں کی ضرورت ہے جو لالچ کے بغیر وطن کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اگر کوئی ایسا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو میر نزدیک وہ بھی عبادت ہے۔ذرا سوچئے۔حقیقی تبدیلی کے بارے میں سوچئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہے اپنے وطن کی ساکھ کو قائم رکھنے اور بچانے کے لئے۔