چکوال: پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما راجہ یاسر سرفراز نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی صاحبِ عقل شخص اگر اپنے آپ کو کسی پارٹی کا کارکن سمجھنے سے پہلے پاکستانی سمجھے تو اس کے زہن میں مندرجہ ذیل سوالات ضرور آتے ہیں۔
١۔ اگرچہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں لیکن اس میں لگائے گئے پیسے کا وائٹ ہونا ضروری ہے اور وائٹ پیسہ صرف دو زریعے سے آتا ہے ۔ ١۔ جدی جائیداد کی فروخت سے ١١۔ ایسی آمدنی سے جس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہو۔ ٢۔ آف شور کمپنی میں پیسہ اگر سٹیٹ بینک کے زریعے ٹرانسفر کیا جائے تو کوئی جرم نہیں لیکن اگر ہنڈی کے زریعے ٹرانسفر کیا جائے تو منی لانڈرنگ کہلاتا ہے اور جرم ہے۔ ٣۔ اگر الیکشن لڑتے وقت اپنی اور اپنے خاندان کی تمام جائیداد جس میں آف شور کمپنیاں شامل ہیں رپورٹ نہ کی جائے تو یہ بھی ایک جرم ہے۔
٤۔ اگر پہلے تین قانونی تقازے پورے کر بھی دئیے جائیں تو پھر بھی ایک ایسے ملک کی سیاسی قیادت کا آف شور میں انویسٹ کرنا اخلاقی طور پر ٹھیک نہیں ہے جہاں پر ہزاروں محنت کش بیرونِ ملک سے اپنے خون پسینے کی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں۔ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اپنے لیڈروں سے یہ سوالات پوچھے اور اگر تسلی بخش جواب نہ ملیں تو ان کا مواء خزہ کریں۔یہ الزامات کسی سیاسی پارٹی نے نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہزاروں کرپٹ لوگوں کے خلاف لگے ہیں اور ان کا جواب یہ نہیں کہ عمران خان یا آصف زرداری پر جوابی الزام لگا دیا جائے ۔میرا اپنے وزیراعظم سے سوال یہ ہے کہ
ادھر ادھر کی نہ بات کریہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا مجھے راہزنوں سے غرض نہیں تیری راہبری کا سوال ہے