دمشق (جیوڈیسک) شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا نے اپوزیشن کی مذاکراتی سپریم کمیٹی کے وفد کو ایک تجویز پیش کی ہے جس میں بشار الاسد کو محدود اختیارات کے ساتھ اپنے منصب پر باقی رکھنے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ شامی صدر کے تین نائب کا تقرر کیا جائے جن کا انتخاب اپوزیشن کرے۔تاہم فرانسیسی خبررساں ایجنسی نے اپوزیشن کے وفد میں شامل ایک مذاکرات کار کے حوالے سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ شامی اپوزیشن نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
وفد کے رکن نے واضح کیا کہ دی میستورا نے ان خیالات کو اس لیے پہنچایا ہے تاکہ اس چکر سے نکلا جائے جس میں ہم گھوم رہے ہیں کہ آیا آئین سے پہلے عبوری حکمراں کمیٹی تشکیل دی جائے یا عبوری کمیٹی سے قبل آئین بنایا جائے۔
مذاکراتی وفد نے مجوزہ خیال کو یکسر مسترد کردیا اور دی میستورا سے کہہ دیا کہ عبوری حکمراں کمیٹی ہی آئین کے ابتدائی نکات وضع کرنے کی مکلف ہوگی جس طرح کا تجربہ لیبیا، عراق اور کانگو میں ہوچکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عبوری حکمراں کمیٹی کی تشکیل سے قبل دستور تیار کرنا شام کے موجودہ آئین کی روشنی میں مشکلات پیدا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا وفد پیر کی شام دی میستورا سے پھر ملاقات کرے گا تاکہ سیاسی اقتدار کی منتقلی اور عبوری حکمراں کمیٹی کی تشکیل کی نوعیت کے حوالے سے بحث مکمل کرلی جائے۔دوسری جانب مذاکرات کی سپریم کمیٹی کے ترجمان سالم المسلط نے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کی تردید کی اور ساتھ ہی باور کرایا کہ اپوزیشن ہر گز یہ قبول نہیں کرے گی کہ بشار الاسد کا شام کے مستقبل میں یہاں تک کہ عبوری مرحلے میں بھی کوئی کردار ہو۔
اقوام متحدہ مذاکرات میں جس روڈ میپ پر عمل کررہی ہے اس کے مطابق چھ ماہ کے اندر اقتدار کی سیاسی منتقلی ہو جانا چاہیے اور 18 ماہ کے اندر نیا آئین تیار کرنے کے علاوہ انتخابات کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس ایگزیکیٹو اتھارٹی کی شکل نہیں مقرر کی گئی ہے جو ملک کو چلائے گی یا بشار الاسد کے مستقبل کا فیصلہ کریگی۔