پیر کی قلا بازیاں

Fake Peer

Fake Peer

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
تلاشِ حق راہِ فقر کے مسافر اپنے چہروں پر عقیدت و احترام کے پھول سجائے اِس نام نہاد پیر کے آستانے پر گردنیں جھکائے پیر کے قدموں میں اپنی پیشانیاں رگڑنے قدم بوسی کی غرض سے زمین پر کیڑے مکوڑوں جانوروں کی طرح لائن بنائے بیٹھے تھے پیر صاحب کی بارعب آواز سے کمرے کے درو دیوار لرز رہے تھے۔ پیر صاحب کے پاس روحانی خزانہ تو تھا نہیں وہ صرف اپنی آواز میں مصنوعی جلال اور گرج پیدا کر کے آنے والوں کو متاثر کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے تھے پہلے تو پیر صاحب نے اپنے آبائو اجداد کی قصیدہ نگاری کی پھر اپنی تعریفوں کے پل باندھے پھر زمین پر بیٹھے مریدوں سے باآواز حلف لیا کہ آج سے آپ کی آزادی ختم اب اِس دنیا اور اگلی دنیا میں مریدوں کی کامیابی کا انحصار اب صرف مرشد کی رضا اور خدمت ہے پھر آستانے اور مرشد خانے پر حاضری کے آداب بتائے گئے یہ واضح طور پر کہا گیا کہ کبھی بھی مرشد خانے خالی ہاتھ نہیں آنا یعنی آج سے بیچارے مریدوں کی زندگیوں کا اولین مقصد مرشد کی رضا ہے اور اگر اِس میں کسی قسم کی کوتا ہی یا گستاخی ہوئی تو نہ اِس جہاں کے رہیں گے اور نہ ہی اگلے جہاں کے اِس طرح کی بہت ساری باتوں کے بعد نئے مریدوں کو جانے کا حکم دیا گیا۔

نئے بیعت ہونے والوں میں اکثریت تو نام نہاد بیعت کے لیے آئے تھے لیکن اِن میں تین ایسے افراد تھے جو واقعی کسی بھی پیر کے لیے قیمتی اثاثہ بن سکتے تھے۔ اُن کی آنکھوں پیشانیوں اور ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ روحانیت قرب الہی اور تلا ش حق کا فطری رحجان رکھتے ہیں اُن کی روح اور جسم میں پیدائشی جبلّی روحانی رحجان تھا ایسے لوگ تلاش حق کے لیے کڑی سے کڑی عبادت اور مجاہدے سے بھی نہیں ڈرتے اُن تینوں نے مرشد کے قریب آنے اُن کے ہاتھ چومنے اور اُن سے تھوڑی سی گفتگو کرنے کی کوشش کی تو اُن کو دور دھتکار دیا گیا کہ کتابوں میں سب کچھ لکھا ہے اُسے پڑھ لیں یا مزار پر موجود خلیفہ سے جاکر پوچھ لیں۔ پیر صاحب کو دیکھنا اُن کی آواز سننا ہی بہت بڑی عبادت تھی جو اُن کو مل چکی تھی اُن تینوں نے مرشد کے قریب آنے کی بہت کوشش کی لیکن اُن کو تقریبا دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا۔ میں حیران پریشان پیر صاحب کا انسانوں بلکہ اپنے مریدوں سے نارواسلوک کو دیکھ رہا تھا روز اول سے صوفیا ء جو ہر دور میں معاشرے کے مظلوم پسے ہوئے طبقے کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں سسکتے تڑپتے روتے بلکتے غریب پسماندہ انسانوں کو گلے سے لگا کر اُن کو حوصلہ دیتے آئے ہیں جب معا شرے کا طبقاتی نظام مجبور بے کس لوگوں کو دھتکار دے تو اہل حق ہی وہ مقدس گروہ ہوتے ہیں جو اِن مظلوم پسے ہوئے طبقے کو اپنے شفقت بھرے دامن اور بازوئوں میں پناہ دیتے ہیں۔

Poor

Poor

معاشرے کا سب سے مقدس شفقت بھرا یہی وہ گروہ ہوتا ہے جو امیر غریب کی تمیز کئے بغیر انسانوں کو گلے سے لگاتا ہے اُن کے دکھ اپنی محبت اور شفقت سے چُنتا ہے جبکہ یہاں پر تو پیر صاحب آنے والے زائرین کو گلے سے لگانا ان کی اشک جوئی کرنا اپنے محبت بھرے دامن کو اُن کے لیے وا کرنا تو دور کی بات ہے اُن سے مصافحہ کرنا گلے سے لگانا اُن کو تسلی کے دو بول بولنا بھی اپنی توہین سمجھا اُن کی طرف شفقت محبت بھری نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہ کیا آنے والے غریب ملک کے دور دراز علاقوں سے تصوف روحانیت کے موتی چننے آئے تھے اپنی روحوں کے زنگ کو صاف کر انے آئے تھے اپنی روحانی پیاس بجھانے آئے تھے یہاں دن بھر اُن کو انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا اور پھر ہمیں متاثر کرنے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اُن کو اندر لایا گیا زمین پر چوپائے جا نوروں کی طرح لائن میں بٹھا دیا گیا اور پھر بیعت کے ڈرامے کے بعد ان جانور نما انسانوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا میں حیران پریشان انسانوں کے ساتھ اس درد ناک روئیے کو دیکھ رہا تھا اور پھر قدرت نے ہمیں ایک اور معنی خیز منظر دکھا کر پیر صاحب کا اصل چہرہ دکھا دیا پیر صاحب جو صبح سے اب تک اپنے چہرے پر تصوف اور بڑے پیر کا لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے قدرت نے ایک سبق آموز واقعے سے اُن کا مادیت میں غرق چہرہ بھی دکھا دیا کہ پیر صاحب کے جسم کا روواں روواں مادیت پرستی میں غرق ہو چکا ہے۔

مریدوں کو بیعت کی سعادت دینے کے بعد ایک بار پھر پیر صاحب مغرور فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے کہ ہماری شان یہ ہے کہ روزانہ بے شمار لوگ روحانیت کی بھیک مانگنے ہمارے در پر آتے ہیں اور اپنے خالی دامن تصوف ، فقیری کی لا زوال دولت سے بھر کر واپس جاتے ہیں پیر صاحب یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ ایک چشمہ معرفت ہیں جہاں روزانہ بے شمار لوگ روحانیت کا فیض لے کر واپس جاتے ہیں اصل میں پیر صاحب نے مجھے ایک اور سبق دیا تھا کہ تم ابھی تک میرے عقیدت مندوں میں شامل نہیں ہوئے تم پتہ نہیں خود کو کیا سمجھ رہے ہو میری شان اور مقام یہ ہے روزانہ کتنے لوگ میرے آستانے کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رگڑتے ہیں۔ لیکن میں حسب معمول خاموشی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا میری خاموشی اور بے نیازی اُس کو کھا رہی تھی ابھی وہ ایسی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک خادم نے اطلاع دی کہ فیصل آباد سے فلاں شیخ صاحب تشریف لائے ہیں۔ آنے والے شیخ صاحب کا نام پیر صاحب کے لیے ایک خوشگوار دھماکے سے کم نہ تھا خادم نے بتایا کہ شیخ صاحب باہر آنے والے ہیں یہ سننا تھا کہ پیر صاحب نے اپنی شاہی مسند سے چھلانگ لگائی اور دروازے کی طرف دوڑے ہم حیران پریشان کہ یہ کون خو ش قسمت ہے جو باہر آیا ہے جس کے استقبال کو پیر صاحب ننگے پائوں باہر کی طرف بھاگے ہیں ۔ ہم حیرت کے مجسمے بنے پیر صاحب کے بدلتے روئیے کو دیکھ رہے تھے۔

welcoming

welcoming

ہم بھی شدت سے اِس انتظار میں تھے کہ یہ کون عظیم انسان ہے یا کوئی بہت بڑا ولی اللہ کوئی عظیم روحانی ہستی جس کے احترام میں پیر صاحب ہم سب کو بھول کر دوڑ کر اُس کے استقبال کو گئے ہیں ۔ ہم آنے والے شخص کی قسمت پر رشک کر رہے تھے ۔ پیر صاحب جو فرعونیت کا مجسمہ بنے احکامات پر احکامات صادر کر رہے تھے ایک دم فرعونیت سے اُتر کر غلاموں کی طرح باہر بھاگے ہیں پیر صاحب کے استقبالیہ روئیے نے ہمارے اشتیاق اور تجسس کو بہت زیادہ بھڑکا دیا تھا ۔ ہم شدت سے منتظر تھے کہ آنے والے کا دیدار ہم بھی کریں ۔ اور پھر ہمیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا پیر صاحب ایک موٹے تازے بڑی توند والے اُدھیڑ عمر شخص کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈالے اندر داخل ہوئے پیر صاحب کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ خادموں نے پیر صاحب کے آنے سے پہلے ہی ایک بہت بڑی صوفہ نما کرسی پیر صاحب کے برابر لا کر رکھ دی تھی۔ اب پیر صاحب نے اپنے برابر والی کرسی پر شیخ صاحب کو بٹھایا اور خود اپنی شاہانہ نشست پر جلوہ افروز ہوگئے۔

شیخ صاحب اپنے ساتھ فروٹ کی بہت زیادہ پیٹیاں لے کر آئے تھے جو خادم اندر لا رہے تھے ۔ پیر صاحب نے شفقت محبت اور خوشامدی لہجے میں شیخ صاحب کا حال احوال پوچھا ساتھ ساتھ پیر صاحب بتا رہے تھے کہ شیخ صاحب کے لیے دن رات آستانے پر دعائوں اور ذکر اذکار کا سلسلہ جاری ہے شیخ صاحب نے نئے نوٹوں کی بہت ساری گڈیاں شاپر میں بھر کر پیر صاحب کو پیش کیں۔ پیر صاحب نے ہماری طرف دیکھا اور اپنی ایک اور زندہ کرامت کا دھماکہ کیا پیر صاحب فرمانے لگے یہ ہمارے بہت بڑے جانثار اور حقیقی مرید ہیں اِن کی عقیدت و محبت کا یہ حال ہے کہ ہر سال نئے ماڈل کی نئی کار یہ ہما رے لیے ایک ٹرک میں لاد کر لاتے ہیں ان کی عقیدت یہ ہے کہ نئی کار پر پہلے صرف پیر صاحب ہی بیٹھیں گے اِس لیے کو ئی ڈرائیور کار کو چلا کر نہیں لاتا عقیدت ہو تو ایسی محبت ہو تو ایسی پیر صاحب کے منہ سے اپنی تعریف سن کر شیخ صاحب بھی اپنی بڑی توند کو ہلا ہلا کر ہنسنے لگے۔

پیر صاحب کی خوشامد سے لگ رہا تھا کہ شیخ صاحب پیر ہیں اور پیر صاحب شیخ صاحب کے مرید ہیں۔ پیر صاحب کا رویہ دیکھ کر مجھے ماضی کے بہت بڑے ولی اللہ یاد آئے جب کسی حکمران نے بہت سارے دیہات پر مشتمل سینکڑوں ایکڑز پر محیط جاگیر کے کاغذات بابا جی کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کئے تو بابا جی نے جلال میں آکر پروانے کو پرزے پرزے کرکے ہوا میں لہرا دیا اور کہا یہ حکمرانی تمہیں ہم نے عطا کی ہے تمہاری جرات کیسے ہوئی ہماری ہی چیز ہمیں دینے کی۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956