تحریر: ایم سرور صدیقی عزت پر دولت کو ترجیح دینے والے ہزار عذرتراشیں ،لاکھ تاویلیں دیں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے 100جھوٹ بولنا ہی پڑتے ہیں یہ الگ بات کہ کچھ منہ پر زیادہ سے بیشتر نجی محفلوں میں بڑے شرمناک تبصرے کرتے ہیں لیکن وہ کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے یہ سمجھ لیتے ہیں میں بلی کی نظروںسے چھپ گیا ہوں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا حالانکہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا وہ لوگوں کی نظروںسے کب گرجاتے ہیں اور نظروںسے گرنا بے حیائی سے کم نہیں۔۔۔۔درویش اپنے دھن میں کہے جارہا تھا اس کے چاروں اطراف لوگوں کا ہجوم تھا درویش کی یہ خوبی تھی کہ وہ سچی اورکھری بات بانگ ِ دہل کہنے کی تاب رکھتاتھا اس نے کہاعزت خوش قسمت کو ملتی ہے اور دنیاوی لالچ میں اپنی عزت کو مٹی میں ملانے دینے والا دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف ہے لیکن افسوس صد افسوس کم ظرف سمجھتے ہی نہیں۔۔ دولت اور اولاد کو فتنہ اس لئے کہا گیاہے کہ اس کی محبت کے رنگ میں اپنے آپ کو سرسے پائوں تک رنگین کرنے والے کا دل کوئلے کی مانند سیاہ ہوجاتاہے لوگوںکی محبت، چاہت، امید اور یقین کودولت پر فوقیت دینا بدبختی کی علامت ہے دولت نمرود،شداد اورفرعون کے پاس کیا کم تھی؟ قارون کی دولت تو ایک ضرب المثل بن گئی ہے ایسی دولت کس کام کی جس کی بنیادپر لوگ نفرت کرنے للیں اور جو دولت لوٹ گھسوٹ کرکے اکٹھی کی گئی ہو انتہائی گھنائونا فعل ہے جو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔
سنو لوگو سنو! دل و دماغ کی کھڑکیاں کھول کر سنو۔۔درویش کی آواز بھرا گئی یہ مسلمانوںکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کبھی کبھار تاریخ کا مطالعہ کرلیا کرو بے اختیار اور بااختیار لوگوںکے حالات عبرت کیلئے کافی ہوتے ہیں ان سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتاہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کو عبرت نہیں ہوتی دلوںمیں دولت کی محبت بڑھتی ہی جاتی ہے۔جب ہلاکو خان نے بغدادپر چڑھائی کی عجب افراتفری مچ گئی خلیفہ معتسم باللہ کو ان کے حواریوںنے مشورہ دیا اب شکست سے نہیں بچا جاسکتا ہلاکو خان سے مذاکرات کرکے کچھ مطالبے منوالئے جائیں شاید بچت کا کوئی پہلو نکل آئے جارح کو خلیفہ نے پیغام بھجوایا جو اس نے منظورکرکے انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دیدی سب بن ٹھن کر ہلاکو خان کے دربارمیں جا پہنچے ان میں کچھ مکار بھی تھے کچھ غدار بھی ۔۔کچھ فکرمند بھی اورکچھ سادہ لوح بھی۔ بھانت بھانت کی بولیاں اس وقت بندہوگئیں جب ہلاکو خان ایک عجب شان سے وہاں پہنچاسب نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا کچھ جی حضوری کرنے لگے اسی اثناء میں رنگ برنگے کپڑوںسے ڈھکے کچھ خوان لائے گئے خلیفہ اور اس کے حواری خوش ہوگئے کہ ہماری خوب خاطر تواضح ہوگی ہلاکو خان نے کہا کھائو۔۔سب نے بے تابی سے رومال الٹے تودنگ رہ گئے خوانوں میں کھانے کی بجائے ہیرے، جواہرات،اشرفیاں اور سونے چاندی کی ڈلیاں تھیں ہلاکو خان کی بارعب آواز گونجی کھائو۔۔ خلیفہ نے ہمت کرکے کہا یہ کیونکر کھائے جا سکتے ہیں؟۔
Jewelry
تم ۔۔۔ ہلاکو خان نے خلیفہ کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہیرے، جواہرات، اشرفیاں اور سونا چاندی جمع کرتے رہے یہ دولت عوام کی فلاح بہبود اور جنگی تیاریوں پر صرف کی ہوتی تو تمہاری پوری سلطنت ہمارے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تم نے جو کچھ جمع کیا تم لوگوں کو وہی کھانا ہوگا یہ میرا حکم ہے اور پھر جس نے کھانے سے انکار کیا ہلاکو خان کے سپاہیوں نے زبردستی اس کے منہ میں ہیرے، جواہرات،اشرفیاں اور سونے چاندی کی ڈلیاں بھردیں چیختے چلاتے اسی عالم میں ان کی موت واقع ہوگئی۔۔۔ دولت سے محبت انسان اور انسانیت کی موت ہی توہے لوٹ گھسوٹ کرکے دولت جمع کرنا ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے اور محض خوشامدیا مادی مفادات کیلئے ایسے عناصرکا ساتھ دینے والے ضمیر فروش بڑے مجرم ہیں۔۔۔درویش کی آنکھوںمیں آنسو تھے اس نے کہا کیا زمانہ آگیاہے اب لوگ لوٹ مارکیلئے بھی تاویلیں دیتے پھرتے ہیں کسی مسلمان کی شان نہیں کہ وہ ایسا کام کرے جب اسے ایک جھوٹ چھپانے کیلئے 100 جھوٹ بولنا پڑیں استغفراللہ استغفراللہ لعنت اللہ الالکاذ بین لوگو! یاد کرو تصورکی آنکھ سے کبھی سوچو وہ معاشرہ بھی کیسا معاشرہ ہوگا جب اس شخصیت جس سے اس وقت کی عالمی طاقتیں ہیبت سے خوفزدہ رہتی تھیں یہ ایک مسجد نبوی میں اس کا دامن تھام کر پوچھتاہے عمر سب کے حصہ میں تو ایک ایک چادر آئی تھی تمہارا قد درازہے تمہارا لباس کیسے بنا؟۔
کسی مذہب کی بنیادپر وجودمیں آنے والی دنیا کی پہلی مملکت میں ایساہی نظام ایسا ہی قانون ہونا چاہیے تھا دعاہے کہ اللہ ہماری یہ خواہش پوری کردے ایک مسلمان حکمران کو اخلاقی طورپر عام آدمی سے بہترہی نہیں بہترین ہونا چاہیے حیف صدر حیف اب حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں ایک بار پھر الفاظ پر غورکریں شاید یہ باتیں کسی کے دل میں ترازو ہوجائیں توعاقبت سنورسکتی ہے۔درویش نے کہاعزت پر دولت کو ترجیح دینے والے ہزار عذرتراشیں ،لاکھ تاویلیں دیں ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے 100جھوٹ بولنا ہی پڑتے ہیں یہ الگ بات کہ کچھ منہ پر زیادہ سے بیشتر نجی محفلوں میں بڑے شرمناک تبصرے کرتے ہیں لیکن وہ کبوترکی طرح آنکھیں بندکرکے یہ سمجھ لیتے ہیں میں بلی کی نظروںسے چھپ گیا ہوں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا حالانکہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا وہ لوگوںکی نظروںسے کب گرجاتے ہیں اور نظروںسے گرنا بے حیائی سے کم نہیں۔ویسے سوچا جائے تو دولت تو طوائفوںکے پاس بھی کم نہیں ہوتی لیکن کوئی انہیں عزت دار تسلیم نہیں کرتا تو سوچنا پڑے گا جس سے انسان کی عزت خاک میں مل جائے ایسی دولت کس کام کی۔
Corruption
لوگ بتاتے ہیں کرپشن اس قدرہو گئی ہے کہ تو کانپ کانپ جاتا ہوں تین تین مرلے کے مکان میں رہنے والے پوری پوری ہائوسنگ سکیموں کے ملک بن گئے ہیں یااللہ رحم اسلام کے نام پرمعرض ِ وجود میں آنے والی مملکت سے یہ سلوک الحفیظ و الامان یہ لو گ کیوں احساس نہیں کرتے ہمارا مذہب تو ویسے ہی ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے اب ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنمائوں اور اداروںکو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے کرپشن جیسے فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔حکمرانوں کو اس سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
لوگو! ۔ میری نظریں وہ منظردیکھ رہی ہیں جب لوٹ کھسوٹ کرنے والوںکو لوگ سڑکوںپر گھسیٹیں گے اور انہیں پناہ دینے والا کوئی نہیں ہوگا ایسا وقت آنے سے پہلے ہمیں اپنے اعمال کو درست کرناہوگا، توبہ کرنی ہوگی،حقداروںکو ان کا حق لوٹاناہوگا اللہ غفورالرحیم ہے معاف کرنے والا غلطیوں ،کوتاہیوں اورفروگذاشتوںسے درگذرکرنے والاہے ایک انسان کتنا کھا سکتاہے۔کتنے سال زندہ رہ سکتا ہے۔کیوں نہیں سوچتا اپنی دولت کو انسانیت کی خدمت پر صرف کرنے والے تاقیامت زندہ رہتے ہیں آپ کے ارد گرد سینکڑوں مثالیں بکھری پڑی ہوں گی زلزلے،حادثے،بیماریاں ہمارے لئے وارننگ ہیں اس سے پہلے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے یاسانس اوپرکی اوپر نیچے کی نیچے رہ جائے جائز ناجائزمیںتفریق کرناہوگی عزت پر دولت کو ترجیح دینے کی روش ترک کرناہوگی یہی درویش کی نصیحت ہے جو اس پر عمل کریگا دونوںجہانوں میں کامیاب و کامران ہوگا انشاء اللہ۔