تحریر : اشفاق راجہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ملک میں نائب وزیراعظم کی کوئی گنجائش نہیں، اگرچہ ان کے الفاظ میں یہ بات تو شامل نہیں لیکن وہ غالباً کہنا یہ چاہتے تھے کہ آئین میں ڈپٹی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ وزیراعظم نواز شریف کی ملک سے غیر حاضری میں ان کے اختیارات کون استعمال کرے گا۔ آئین اس سلسلے میں خاموش ہے۔
البتہ صدر مملکت اگر ملک سے غیر حاضر ہوں تو ان کی جگہ قائم مقام صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ یہ عہدہ سینیٹ کا چیئرمین سنبھالتا ہے جیسے آج کل بھی چیئرمین سینیٹ رضا ربانی قائم مقام صدر ہیں۔ اگر یہ دونوں حضرات بیک وقت ملک سے باہر ہوں جیسا کہ کبھی اتفاق ہوسکتا ہے تو پھر قومی اسمبلی کے سپیکر، قائم مقام صدر کا منصب سنبھالتے ہیں۔ تاہم آئین پاکستان میں ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ اگر وزیراعظم ملک سے باہر ہوں گے تو ان کا عہدہ کون سنبھالے گا، اس لئے کبھی قائم مقام وزیراعظم مقرر کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ البتہ حالیہ سیاسی تاریخ میں دو مرتبہ نائب وزیراعظم کے عہدے پر دو شخصیات فائز رہی ہیں، سقوط مشرقی پاکستان سے تھوڑا عرصہ پہلے جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن نورالامین کو وزیراعظم نامزد کیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنایا گیا تھا۔
وہ اس حیثیت میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوئے، وہاں خطاب کیا اور عالمی ادارے میں دوسری مرتبہ ان کے یہ الفاظ گونجے کہ پاکستان ہزار سال تک ہندوستان سے جنگ لڑتا رہے گا۔ پہلی مرتبہ انہوں نے یہ الفاظ اس وقت کہے تھے جب وہ 1965ء کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں بطور وزیر خارجہ خطاب کر رہے تھے۔ بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ کا نعرہ ان کی ہر دلعزیزی کا باعث بن گیا۔ خیر بات ہو رہی تھی نائب وزیراعظم کے عہدے کی، جو آئین میں موجود نہیں ہے۔ جب بھٹو چند روز کے لئے اس عہدے پر فائز رہے، اس وقت تو ملک میں کوئی آئین نافذ نہیں تھا، جنرل یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962ء کا آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کر دیا تھا اور جنرل یحییٰ خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔
Pakistan
وہ اپنا ہی بنایا ہوا آئین منسوخ نہ کرتے جو انہوں نے بڑے بڑے آئینی ماہرین سے بنوایا تھا اور کسی اسمبلی کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی تھی اور ان کے خیال میں یہ آئین ملک کے دلدر دور کرسکتا تھا تو ان کی جگہ قائم مقام صدر کا عہدہ سپیکر قومی اسمبلی سنبھالتا، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ جو آئین انہوں نے بڑی محنت سے تیار کروایا، اسے خود ہی اپنے حکم کے تحت منسوخ بھی کر دیا، جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال کر ایل ایف او نافذ کیا اور اس کے تحت انتخابات کروائے، البتہ انہوں نے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں لیت و لعل سے کام لیا تو مشرقی پاکستان کے حالات بگڑ گئے۔
1971کا پورا سال اسی کشمکش میں گزرا یہاں تک کہ 3 دسمبر کو بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ حالات جب بہت نازک ہوگئے تو جنرل یحییٰ خان نے نورالامین کو وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نامزد کر دیا، لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ سب کچھ ختم ہوگیا اور 20 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔دوسری مرتبہ نائب وزیراعظم کا منصب چودھری پرویز الٰہی کے حصے میں آیا۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی، یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ مسلم لیگ (ن) اے این پی اور ایم کیو ایم بھی اس مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔ مسلم لیگ (ن) تو زیادہ عرصے تک رفاقت کا یہ سفر جاری نہ رکھ سکی اور حکومت سے الگ ہو گئی۔ تاہم اے این پی اور ایم کیو ایم آخر تک حکومت میں شامل رہیں۔ اگرچہ موخر الذکر متعدد بار حکومت سے الگ بھی ہوئی تاہم اسے منا کر حکومت میں شامل کیا جاتا رہا۔ اس دوران (صدر) آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمت کی پالیسی کو وسیع کیا اور مسلسل کوششوں سے مسلم لیگ (ق) کو بھی حکومت میں شامل کر لیا۔
Chaudhry Pervaiz Elahi
چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنایا گیا، ان کی جماعت سے دوسرے وزیر بھی شامل رہے۔ اس کا ایک فائدہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ق) کے تقریباً 55 ارکان کی وجہ سے حکومت کو دوسری جماعتوں کی حمایت کی محتاجی نہ رہی۔ اگرچہ چھوٹی جماعتیں بدستور شریک حکومت رہیں، لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کو اتنی عددی اکثریت مل گئی کہ کسی وقت اگر کوئی ایک جماعت حکومت سے الگ بھی ہو جاتی تو حکومت گرنے کا خدشہ نہ رہتا۔
مسلم لیگ (ق) کو اپنی اس حیثیت کا اندازہ تھا، اس لئے اس نے نائب وزیراعظم کے عہدے کے لئے اصرار کیا جو اسے مل گیا۔ وہ نگران حکومت کے قیام تک اس عہدے پر رہے، تاہم الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ بھی الیکشن ہار گئی۔
اس وقت اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیراعظم کی غیر موجودگی میں حکومتی امور سرانجام دے رہے ہیں، تاہم وہ نہ تو وزیراعظم کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی خود کو نائب وزیراعظم کہتے ہیں، وہ صرف وزیر خزانہ ہیں۔ البتہ آئینی ماہر چودھری اعتزاز احسن سے ایک سوال ضرور ہوسکتا ہے کہ اگر چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنایا جاسکتا تھا، تو موجودہ حالات میں کسی کو یہ عہدہ کیوں نہیں سونپا جاسکتا؟ تب جو کام جائز تھا وہ اب ناجائز کیونکر ہو سکتا ہے۔