تحریر: سید توقیر زیدی دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان حکومت پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے بعد جن میں وزیراعظم نوازشریف کے بیٹوں کا نام بھی شامل ہے۔ ملک میں اپوزیشن جماعتوں کیلئے ایک طوفان کھڑا کرنے کا بہانہ پیدا ہو گیا ہے، جن میں وزیراعظم کے خلاف تحریک کھڑی کرنے والوں میں سب سے نمایاں شخصیت عمران خان کی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 24 اپریل کو اسلام آباد میں احتجاجی جلسے کا اعلان کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے رائے ونڈ لاہور میں وزیراعظم نوازشریف کی نجی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کے دھرنے کے بعد اگر انہوں نے ایسا دھرنا دیا تو یہ دھرنا ٹو کہلائے گا۔
موجودہ سیاسی کھیل میں عمران خان پہلے بھی اور آج بھی صرف حکومت گرانا چاہتے ہیں، جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (فضل) شامل ہیں۔ دباؤ میں آئی ہوئی حکومت سے اپنے سیاسی اور نجی مطالبات منوانا چاہتی ہیں۔ ان جماعتوں کے لیڈران اور تحریک انصاف کے رہنماؤں میں اگرچہ ملاقاتوں اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی اکثریت عمران خان کو کھلا راستہ نہیں دینا چاہتی۔
وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی جماعتوں کے قائدین سے پرانے مراسم بھی ہیں جو ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں، جبکہ عمران خان اور دیگر جماعتوں کے قائدین میں ابھی دوریاں موجود ہیں۔ عمران خان عوام کے اذہان میں حکومتی استحکام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے امپائر کی جانب سے انگلی اٹھانے کا ذکر کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں اپنے دھرنے کے دوران بھی عمران خان بار بار امپائر کی جانب سے انگلی اٹھانے کا ذکر کرتے تھے، لیکن امپائر کی انگلی نہ اٹھی بلکہ جونیئر امپائر فرائض سے سبکدوش ہو کر گھر چلے گئے۔
General Raheel Sharif
گوادر کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سب سیاسی قوتوں پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اختلافات کی بجائے تعاون کو فروغ دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی سیاسی قوتوں سے کہا ہے کہ موجودہ لولے لنگڑے نظام کو چلنے دیا جائے۔ ایک جمہوری نظام میں حکومت یا حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنا اپوزیشن کا جائز حق ہے، بلکہ اپوزیشن جمہوری نظام کا جزولاینفک ہے ،لیکن اپوزیشن کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے، جس سے جمہوری نظام عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہو۔ پاکستانی قوم آمریتوں کے زخموں سے چور چور ہے۔ اس لئے کوئی ایسی احتجاجی تحریک جس سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا خطرہ ہو قوم کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ نوازشریف کا دفاع کرنے والی بات نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ نوازشریف ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان نے پاکستان میں بھی بہت کاروبار کیا اور جب جنرل پرویز مشرف نے انہیں 10برس کے لئے سعودی عرب جلا وطن کر دیا تو انہوں نے سعودی عرب میں بھی سٹیل ملز لگائی اور لندن میں بھی کاروبار شروع کیا۔
سعودی حکمرانوں کے نوازشریف سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ اس لئے سعودی حکمرانوں کی دولت بھی کاروبار میں لگوانا وزیراعظم نوازشریف کے خاندان کے لئے کوئی مشکل نہیں رہا۔ محض پاناما لیکس کی ایک خبر پر جس کی تصدق ہونا ابھی باقی ہے اور جس کے بارے میں ابھی کوئی غیر جانبدارانہ تحقیقات بھی نہیں ہوئی، عمران خان جیسے سیاست دان وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں، لیکن وہ بلاجواز مطالبات کے ذریعے اپنا سیاسی قد کم کر رہے ہیں۔ اس وقت وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید ہی اس معاملے میں کوئی پر مغز بات کر رہے ہیں۔ ورنہ وزیراعظم کے دیگر ساتھی وزیراعظم کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں کو بھی اپنے بیانات کے ذریعے ناراض کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
Democracy
اگر کوئی شخص امور مملکت میں وزیراعظم کو کوئی اچھا مشورہ نہیں دے سکتا تو کم از کم اپنے بیانات کے ذریعے اپوزیشن لیڈروں پر تند و تیز حملے کرکے ان میں تلخی کو بڑھاوا نہ دے۔ پاکستان میں جمہوریت کا پودا اتنا پروان نہیں چڑھا کہ اگر خوش قسمتی سے منتخب حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے لگی ہیں تو ایک مرتبہ پھر ہم منتخب حکومتوں کو مدت پوری کرنے سے روکنے کا کھیل شروع کر دیں۔ اس طرح ہم جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنیں گے اور ملک میں ایک مرتبہ پھر آمرانہ قوتوں کو تقویت حاصل ہوگی۔
ملک میں بہت سے لاوارث اور یتیم سیاسی گروہ اور شخضیات موجود ہیں جو آمریت کا دودھ پی کر پروان چڑھے ہیں، اس لئے جمہوری اداروں کے لئے سخت اذیت کے ادوار ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں اور سازشیں بھی۔ لیکن عمران خان کے ساتھ ایسا نہیں، وہ ایک مقبول پارٹی کے سربراہ ہیں، انہیں کسی بھی جانب سے ہونے والی سازش میں شریک نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے میں تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ جمہوریت کے تسلسل کے ذریعے ان کی بھی باری آ جائے اور وہ عوام کو ایسا اچھا انتخابی منشور دے سکیں، جس سے متاثر ہو کر لوگ انتخابات کے ذریعے ان کو وزیراعظم 8 منتخب کرلیں، لیکن اس کے لئے جمہوریت کا تسلسل اولیں شرط ہے۔