تحریر : احمد نثار ترکی کا شہر استامبول، سنہ 1609تا 1616، سلطنتِ عثمانیہ، سلطان احمد اول کے دور میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی جس کو سلطان احمد مسجد کہتے ہیں۔ جہاں اس مسجد کی تعمیر ہوئی، اس جگہ پر بازنطینی دور سلطنت کا ایک باسیلیکا تھاجس کو ایا صوفیہ یا ہاگیہ صوفیا بھی کہتے ہیں۔ باسیلیکاکے تین معنی نکلتے ہیں، ایک؛ شاہی دیوانِ عام، دو؛ شاہی دیوانِ خاص یا دربار، تین؛ اسلاف کا گرجا گھر۔مشہور ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سلطان احمد اول نے کروائی۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد اول کے حکم پر حسنہ بنت مریم نے کروائی تھی۔
اس مسجد کو بلو ماسک، نیلی مسجد، مسجد سلطان احمد، سلطان جامی مسجد و دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ چونکہ اس کی اندرونی دیواریں نیلے رنگ کے ٹائلز سے بنائے گئے ہیں اس لیے اس رنگ کی وجہ سے نیلی مسجد یا بلو ماسک بھی کہا جاتا ہے۔
مسجد سلطان احمد در اصل ایک جامی ہے جسے کُلیہ بھی کہتے ہیں۔جامی یا کلیہ وہ کامپلیکس ہے جس میں موصوف کی مزار، مدرسہ ، مسجد اور خانقاہ رہتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مسجد سلطان احمد بھی ایک کامپلیکس۔اس کے معمار یا چیف انجنیئر البینیا کے سدفکار محمد آغاتھے۔
Blue Mosque
یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں، تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اْس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھہ تھی۔ لیکن کیونکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اس لیے مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اْس کے میناروں کی تعداد سات کر دی گئی۔
مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے جس کا قطر 33 میٹر اور بلندی 43 میٹر ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک (قدیم نیسیا) میں تیار کی گئیں۔
دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔
Mehmed Aga
اس مسجد کی شایانِ شان یہ ہے کہ مسجد کے اندر اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے قرآن مجید کی آیات کی خطاطی کی ہے۔ اس پر نقوش کی گئی خطاطی اسلامی فنِ خطاطی کو ظاہر کرتی ہے۔اس کی ایک اور خوبصورتی اس کا مہراب ہے، جو مرمر سے بنایا گیا ہے۔
مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں۔ موذن کی آواز کو صوتی نظام استعمال کر کے قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سننے کا انتظام کیا گیا ہے۔
نماز مغرب پر یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد حاظر ہوتی ہے۔ رات کے وقت مسجد کامپلیکس کا منظر نہایت سہانا ہوجاتا ہے۔ رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کی خوشنمائی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
Ahmed Nisar
تحریر : احمد نثار Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in