تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری علامہ اقبال کے فکروفن پر اب تک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ اب تک حق ادا نہیں ہوا ہے۔کیونکہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر بھی تھے۔شاعری ان کے فکرومطالعہ کا نچوڑ ہے۔ ان کی شاعری معانی کا ایک سمندر ہے جس میں جو جتنی گہرائی تک غوطہ زن ہوتا ہے وہ اتنا ہی قیمتی موتی پاتا ہے۔جیسے کہ اردو ادب کے ایک دانشور ناقدپروفیسر آل احمد سرور نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔”اقبال کا فن وہ سمندر ہے جس کا صرف ساحل سے نظارہ کافی نہیں۔ ہمیں اس کی گہرائی میں جانا چاہیے تاکہ اس کے موتیوں تک پہنچ سکیں”۔(اقبالیات ۔ سرینگر ۱۹۸۳ء) بلاشبہ اقبال اردو کے بڑے شاعر نہیں بلکہ ادبیات عالم کے عظیم شاعر ہیں۔
انہوں نے اپنی شاعری سے ایک مردہ جسم میں زندگی کا خون دوڑایا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو انسانکی حقیقی زندگی اور اس کے مسائل سے ہمکنار کرکے تامل و تفکر کے عناصر سے ہم آ ہنگ کیا ہے۔ غرض کہ ان کی شاعری میں زندگی ہے اور زندگی بخشنے کا سلیقہ بھی۔ اقبال کی شاعری صرف شاعری نہیں بلکہ ان کے مقصد کے اظہار کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ بقول اقبال نغمہ کجا و من کجا، ساز سخن بہا نہ ایست سوئے قطاری کشم، ناقہ بے زمام را
اردو شعروادب میں حالی،اکبر اور اقبال سے مل کر ادبی تثلیث بنتی ہے اس میں علامہ اقبال کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تینوں ایک ہی راہ کے مسافر تھے اور ایک ہی منزل کے متلاشی بھی، مگر تینوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر اور طریقہ کار الگ الگ تھا۔ حالی اور اکبر کے دل میں بھی وہی قوم وملت کا دردوغم تھا جس کا رونا اقبال کو تھا۔ حالی بھی اپنےتہذیب و تمدن کے چراغ کو بجھتا ہوا دیکھ کر مایوس ہوتے ہیں اور ” مدوجزر اسلام” کی تخلیق کرتے ہیں اور اپنی قوم کو اس کی حقیقت اور اسلاف کی تاریخی اہمیت سے آشناکراتے ہیں۔ اکبر اسی کام کو انجام دینے کے لیےطنزوضرافت کا طوفان لے کر نکل پڑے ہیں مگر مغربی تہذیب کے شعلے کو بجھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتے۔
Poetry
اقبال ان دونوں کے تجربات کو سامنے رکھ کر اور اپنے خودی و آئینہ میں پرکھ کر خاصی نمائشی اور دلفریب مغربی تہذیب کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور خاص کر اپنی قوم کو بیدارکرنے کے لیے کوشاں نظرآتے ہیں۔اقبال نے دیگر شعراء کی طرح اردو کی روایتی شاعری کو نہیں اپنایا۔ عشق و معشوق کا قصہ پیش نہیں کیا۔ گل و بلبل کے گانے نہیں لکھے غم جاناں کی حکایت اور غم روزگار کی شکایت سے اپنا دامن بچایا اور موجودہ حالات کو پیش نظر رکھ کر پیغمبرانہ شاعری کی۔ کیونکہ شاعری کی زبان علامتوں، تشبیہات اور استعاروں کی زبان ہوتی ہے اس لیے علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں ان شعری لوازمات سے کام لیا ہےانہوں نے اپنے اشعار میں علامتیں بھی ایسی استعمال کی ہیں جس سے انسان کی شخصیت کی برتری معلوم ہوتی ہے۔ یوں تو اقبال نے روایتی علامتیں مثلاً آشیانہ، قفس، موج، طوفان، شراب، ساقی اور صیاد وغیرہ جیسی علامتیں بھی استعمال کی ہیں اور ایسی بھی علامتیں ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ اور اسلامی اساطیر سے ہےمثلاً کلیم، خلیل، چراغ مصطفوی وغیرہ ان کے علاوہ ان کی شاعری میں تخلیقی علامتیں بھی دیکھنے کوملتی ہیں جن میں شاہین کی علامت بہت اہم ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال کثرت سے کیوں کیا ہے اس حقیقت کے متعلق ماہرین اقبالیات پروفیسر رفیع الدین لکھتے ہیں۔
“اقبال کا فکرعظیم لفظوں میں، علامتوں اور استعاروں کے ذریعہ ہی قارئین پر اپنی معنویت آشکار کرتا ہے بس ہمیں ماننا چاہیے کہ اگر اقبال کی شاعری اس فکر عظیم سے خالی ہوتی جو ان کی شاعری کی روح ہے تو تاریخ ادب میں وہ شاید اپنی موجودہ مسند پر فائز نہ ہوتے “(اقبال بحیثیت شاعر-۸) اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامات کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیاز یحیثیت رکھتا ہے اقبال کی نظمیں ان کی حب الوطنی، ذوق و حسن،اور ہم آہنگی فطرت کی آئینہ دار تھیں۔ وہ ایک عرصہ جرمنی میں مقیم رہے جہاں سے انہوں نے جن فکری اثرات کو قبول کیا ان میں نطشے کا فلسفہ قوت و زندگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جرمن قوم کی فعالیت، بلند نظری اور جرمن مرد کی خود شناسی اور خود اعتمادی نے اقبال کے نظامِ فکر پر گہرا اثر ڈالا اور اس اثر کی ایک یادگار ان کی فضائے سخن میں اس پرند کی آواز ہے جسے شاہین کہتے ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ یورپ کی سب سے باعمل قوم کا تصور شاہین قوت، تیزی، وسعت نظر، دور بینی، اور بلند پروازی کی خصوصیات پر محیط تھا لیکن جب اقبال نے اسے اپنایا تو اس کی مشرقی روحانیت اس کی تخلیق پر غالب آگئی اور اس نے شاہین کو مذکورہ خصوصیات کے علاوہ دور اندیشی ،قلندری، اور خوداری و بے نیازی کی اعلٰی صفات سے مزین کیا اور اپنی قوم کے نوجوانوں کے سامنے اسے زندگی کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کا ذکرجگہ بہ جگہ کیاہے شاہین کی علامت کے ذریعے اپنے مرد مومن اور مرد کامل کےاوصاف کو اجاگر کیا ہے۔ اقبال نے شاہین کو ہی اپنی شاعری کے لیے کیوں منتخب کیا۔اس کے بارے میں خود لکھتے ہیں ۔”شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہےبلکہ اس پرندہ میں اسلامی فخر کی کل خصوصیات پائی جاتی ہیں”علامہ اقبال بار بار اپنے اس مرد کامل سے اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ وہ ان شاہین کے اوصاف اور عادات کو اپنا لیں۔اس پرند ے کی خوداری، غیرت مندی، خلوت پسندی، بلندپروازی اور دوربینی کو اپنائیں ، اقبال آرزو مند ہیں کہ جس طرح شاہین قناعت کا قائل نہیں بلکہ حرکت کو اپنی زندگی سمجھتا ہے اسی طرح مرد کامل یا مرد مومن کو بھی حرکت میں برکت تصور کرنا چاہیے۔ حرکت اور جدوجہد میں ہی زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔اس لیے مسلمان کو بھی چاہیے کہ کسی ایک مقام پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھیں۔ وہ کہتے ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
Iqbal
اقبال کا شاہین مرد مومن کی علامت ہے ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں انسان عیش کوشی اور لذت طلبی کے لیے نہیں آیا۔ وہ کسی محل میں زندگی گزارنے نہیں آیا بلکہ اس کام سے کہوہ ساری دنیا میں پھیل جائے۔ بیاباں کی تیزوتند ہواؤں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرے اور خود اعتماد جفاکش بن جائے۔ اقبال کہتے ہیں۔نہیں تیرا نشیمن قصرِسلطانی کے گنبد پرتو شاہین ہے بسیر ا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں شاہین خودار اور غیرت مند ہوتا ہے وہ اپنا شکار خود کرتا ہے وہ کبھی بھی دوسروں کے ہاتھ کا شکار نہیں کھاتا وہ بھوکا رہ سکتا ہے مگر مردہ چیز کو نہیں کھاتا وہ دوسروں پرزندگی گزارنا موت سمجھتا ہے۔ بقول اقبال
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
شاہین خلوت پسند ہوتا ہے وہ گلشن سے دور بیاباں میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خلوت میں رہنے سے خودی مجروح نہیں ہوگی، اس لئیے اقبال اپنے مرد کامل کو بھی خلوت پسندی کا درس دیتے ہیں اور شاہین کی زبان میں فرماتے ہیں:
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
شاہین دو ربین ہوتا ہے اور تلاش و جستجو میں کامل۔ اس لیے وہ دور بیٹھا چھوٹے سے چھوٹے پرندے کو بھی اپنا شکار بنا لیتا ہےاس لیے اقبال کی آرزو ہے کہ مردمومن کی بھی شاہین کیجیسے دور بین آنکھ ہوجائے۔ چیتے کا جگر چاہیے، شاہین کا تجسس جی سکتے ہیں بے روشنی دانش فرہنگ
علامہ اقبال کے ان اشعار کے علاوہ بھی بہت سے ایسے اشعار ہیں جن میں شاہین بطور علامت استعمال کیے گئے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضاء میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
گذر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہین کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہین بناتا نہیں ہے آشیانہ
علامہ اقبال کے کلام میں شاہین کی علامت پر چند ناقدین ادب نے اعتراضات بھی کیے ہیں کہ اقبال نے شاہین کی علامت صرف قوت اور چیرہ دستی کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن یہان لوگوں کی کم نظری اور تعصب کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اقبال کا شاہین طاقت ور ہے مگر وہ کمزور پرندوں کا شکار نہیں کرتا۔ وہ بلندخیالی ، دور بینی، جفاکشی، دلیری،خوداری اور خود اعتمادی کا پیکر ہے اور یہ تمام صفات وعادات اسلامی ہیں جیسا کہ عبد الرحمٰن طارق نے اپنی مشہور زمانہ کتاب “جہانِ اقبال” میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ:” حق یہ ہے کہ اپنے کلام میں شاہین کا کریکٹر پیش کرنے سے اقبال کی مراد ظلم و ستم اور جور و استبداد ہرگز نہیں شاہین اقبال کی شاعری میں ضبط خودی کا ترجمان ہے” ( جہان اقبال ۴۲۳)حقیقت بھی یہی ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کی علامت کے ذریعہ انسان کی عظمت کو اجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے اقبال کی شاعری میں مرد مومن اور شاہین کی علامت کے متعلق درست ہی لکھا ہے کہ:” آدم کا کائنات کے تسلط سے آزاد کرانے اور ان کی انفرادیت کو اجاگر کرنے کی ایک دل آویز کاوش ہے اس کے تحت اقبال نے آدم کی عظمت کو مرد مومن اور شاہین جیسی علامات سے ظاہر کیا ہے اور اس قوت ہمت تحریک اور ذہنی و جسمانی تفوق کے عناصر کو یکجا دیکھنے کی آرزو ہے” (اردو شاعری کا مزاج ۳۳۹)