کراچی (جیوڈیسک) ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں آگ لگنے کے نہ جانے کتنے سانحات ہوگئے لیکن ہم نے ان سانحات سے گزرنے کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ آج سے کوئی 8 سال قبل جنوری 2008 میں کراچی کے علاقے سائٹ میں واقع پینٹ بنانے والی فیکٹری میں خوفناک آگ لگ گئی ۔ فیکٹری کو مزدوروں سے تو خالی کرا لیا گیا لیکن 20 فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اور تین سنارکلس بھی فیکٹری کو جل کے راکھ ہونے سے نہ بچا سکیں ۔
دسمبر 2009 میں یوم عاشور کا سانحہ ہوا جس میں مشتعل افراد نے بولٹن مارکیٹ اور اس کی ملحقہ مارکیٹوں کو کیمیکل چھڑک کر آگ لگا دی ۔ کئی گھنٹوں تک فائر بریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو نہ پا سکا تو کے پی ٹی ، نیوی، پاکستان ایئر فورس اور سول ایوی ایشن سے مدد لینا پڑی ۔ آگ کے باعث درجنوں دکانیں جل کر خاکستر ہوگئیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا ۔
کراچی میں 2009 کے اس سانحے کے بعد بھی شہری حکومت کی جانب سے محکمہ فائر بریگیڈ کو بہتر بنانے کے لیے کوئی توجہ نہیں دی گئی اور یوں ستمبر 2012 میں بلدیہ فیکٹری کا المناک سانحہ رونما ہوا جس میں صرف مالی نقصان ہی نہیں بلکہ 250 سے زائد قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا ۔ اس بڑی آگ کو قابو کرنے کے لئے شہر بھر کی 20 فائر بریگیڈ کی گاڑیوں اور ایک سنارکل نے حصہ لیا ۔
اس پر قابو نہیں پایا جاسکا تو دیگر اداروں کی مددد لینا پڑی یہی نہیں اس کے بعد بھی دسمبر 2014 میں اولڈ حاجی کیمپ کے علاقے میں واقع ٹمبر مارکیٹ میں بھی خوفناک آتشزدگی نے کئی دکانوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور انتظامیہ اس وقت بھی غفلت کی نیند سے نہیں جاگ سکی ۔