تحریر : منشاء فریدی تاریخ ہمیشہ ان ہستیوں کو زندہ رکھتی ہے جو اپنی جد جہد کے ذریعے ایسا فلسفہ عام کرتے ہیں جو دوسروں کی زندگی اور روّیوں میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں ۔ یہی جدو جہد ارضی حقائق بدلنے میں بھی مدد دیتی ہے ۔ اپنا معاش ، اقتصاد اور دیگر مفادا ت کو اجتماعی مفادات کیلئے قربان کر دینا یقینا ایک مثبت ترین عمل ہے ۔ دو طرح کے طبقات ہیں جو کسی بھی تحریک کو پروموٹ کر کے وسیب واسیوں پر احسان کرتے ہیں ۔ سیاست دان اور دانشور، اول الذکر میر ے خیال میں مو اخرالذکر کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتا کیونکہ سیاستدان اپنے پیغام کے ابلاغ کیلئے تخلیق کار ( رائٹر ) کا سہارا لے کر آگے بڑھتا ہے ورنہ اس کا پیغام محض اس کے لبوں تک ہی محدود رہتا ہے ۔ چونکہ قلمکار پیام بر کا درجہ رکھتا ہے۔
اس لیے قلم کو دنیا کی اصلاح کیلئے اہم مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ اسی طرح ایک سیاسی کارکن جو اندیشہ سود و زیاں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اصلاحی مقاصد کے حصول کیلئے شب و روز محنت و مشقت کرتا ہے بھی معاشرے کیلئے اہم ہے۔ سرائیکستان کے قیام کیلئے شعوری و سیاسی جدو جہد میں اس وقت بہت سے نام ہیں ۔ جواپنے تئیں کوشش میں مصروف ہیں ۔ خواجہ غلام فرید کو ریجہ بھی ان عظیم دھرتی زادوں کی فہرست میں آتے ہیں ۔ جو دن رات ایک کر کے اس عظیم مشن کے حصول کیلئے سر گرم ہیں ۔ خواجہ غلام فرید چونکہ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کسی بھی اپنے پیغام میں شور ش کا درس نہیں دیا ۔ سرائیکی قومی جد وجہد کیلئے کام کرنے والوں کو آپ نے عملی طور پر متحرک کیا اور سرائیکیوں کے شعور میں اس غیرت کو انجیکٹ کیا ۔ ان کی پہچان ہے۔ یہی پہچان ہی سرائیکیوں کیلئے اہم جز و ہے ۔ جزو ایمان ہے۔ اس وقت سرائیکی قو میتی جدو جہد میں جو جماعتیں کام کر رہی ہیں ان سب میں خواجہ غلام فرید کو ریجہ کی قیادت میں چلنے والی جدو جہد قابل ذکر ہے ۔ وہ اس لیے کہ شاعر ہفت زبان خواجہ غلام فرید اہل سرائیکی کیلئے مرکز کا درجہ رکھتے ہیں۔
Saraiki
اس لئے دربار فرید اہل سرائیکی کیلئے ثقافتی ، معاشی و ادبی حوالے سے قابل اعتماد مرکز بھی ہے۔ اسی سبب خواجہ غلام فرید کو ریجہ ( جو خواجہ فرید کے سجادہ نشین ہیں ) سر براہ سر ائیکستان قومی اتحاد اور چیئر مین تحریک فرید پر سرائیکیوں کو مکمل اعتماد ہے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ خواجہ غلا م فرید کوریجہ اس وقت سرائیکی خطے میں دیگر تمام سرائیکی قوم پر ستوں سے زیادہ متحرک ہیں ۔ اور ایک طرح سے قومی سطح پر سرائیکی صوبے کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔ مرکز پرست سیاسی جماعتیں سر کاری مراعات کی طاقت پر ووٹرز کو خرید لیتی ہیں۔
اس سوچ کو راقم کے نزدیک کوئی معیار حاصل نہیں ہے ۔ وہ اس لئے کہ مسائل میں جکڑے عوام آج کل محض بکائو مال کا درجہ رکھتے ہیں ۔ راقم کی ڈکشن میں آج کے ووٹرز عوام کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ عوام اورا قوام اعلیٰ شعور کے حامل ہیں ۔ جبکہ آج کے ووٹرز اس فلسفے سے عاری ہیں ۔ اس لئے لفظ عوام کے مفہوم کی ذمہ داری ان پر ڈالنا انتہائی غلط ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی مراعات یافتہ اور زر پرست و حریص سیاسی پارٹیوں کے مقابل سرائیکی قومی شعور کا پر چار خواجہ غلام فرید کوریجہ کا اہم قومی کا رنامہ ہے ۔ جو قابل ستائش ہے ۔ کیونکہ تاریخ ہمیشہ ان ہستیوں کو زندہ رکھتی ہے ۔ جو اپنی جدو جہد کے ذریعے ایسا فلسفہ عام کرتے ہیں۔ جو دوسروں کی زندگی اور رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔