چھوٹو گینگ

Choto Gang

Choto Gang

تحریر: اصغر علی جاوید کامریڈ
رینجر کے کراچی آپریشن کے بعد اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھاکہ پنجاب میں بھی رینجرز کے ذریعے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کروایاجائے پنجاب کے کئی علاقوں خصوصاً جنوبی پنجاب میںنوگو ایریازکو ختم کر وایا جائے رینجر ز کو پنجاب میں کاروائیاں کرنے کی وفاقی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت اجازت دینے کوتیار تھی لیکن سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد عسکری قیادت کے پنجاب میں آپریشن کے اصولی فیصلے کے بعد فورسز نے کاروائیاں شروع کردیں لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے وزیر داخلہ کے ہمراہ عسکری قیادت کو یہ باورکرانے کی ایک اور کوشش کی عسکری قیادت کے پاس تمام انفارمیشن موجود تھیں جس کی بنیاد پر انکی فورسز نے اپنا کام جاری رکھا جوخدشات اپوزیشن ظاہرنے ظاہر کر کے رینجر سے آپریشن کا مطالبہ کیا تھا اس مطالبے کو تقویت اور حقیقت چھوٹو گینگ نے کاروائیاں کرکے دیں بلکہ پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسروں کی چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کی غلط حکمت عملی کی وجہ پولیس کے 7جوان شہید ہوئے اور 24 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا پولیس کی اس ناکامی کی وجہ سے چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے لئے پاک آرمی کو امداد کے لئے بلانا پڑا وہاں پنجاب حکومت کے ان تمام دعووٰں کی قلعی کھول دی اپوزیشن جماعتوں کے آرمی اور رینجرز سے آپریشن کے مطالبے کو تقویت دی پاک فوج کے جوانوں نے پولیس کو پیچھے بلاکر خود آپریشن کی کمان سنبھال لی اور چھوٹو گینگ کے خلاف اپنی پیشہ ورانہ حکمت عملی کے تحت بھرپور آپریشن شروع کردیا اور چھوٹو گینگ کو ہتھیارڈالنے کی وارننگ دے دی اوران کی رسد کے تمام راستے بند کر دئیے

جس کے باعث مجبوراً چھوٹو گینگ نے ہتھیار ڈال دئیے اور ان کے قبضے سے یرغمال بنائے گئے بچوں اور عورتوں سمیت دیگر یرغمالیوں کو چھڑوا لیا گیا جبکہ چھوٹو گینگ کئی روز سے آرمی کے اعلیٰ افسروں سے ملاقات کے لئے پیغام بھجواتا رہا اسے خدشہ تھا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو پولیس مقابلہ میں نہ مروا یا جائے جبکہ عوامی حلقوں کا بھی یہ مطالبہ تھاکہ چھوٹوگینگ کے سربراہ اور اس کے ساتھیوں کو زندہ گرفتار کر کے اصل حقائق معلوم کر کے عوام کے سامنے لائے جائیں اب یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ایک چائے کی دکان پر ملازمت کرنے والا چھوٹو جرائم کی دنیا کا ڈان کیسے بنا غلام رسول عرف چھوٹو مزاری قبیلے کی سب کاسٹ باکرانی سے تعلق رکھنے والا ایک غریب بچہ تھا جوراجن پور (روجھان) کچے کے علاقہ کا مکین تھا اور دریائے سندھ کے کنارے ایک چائے خانے پر ملازم تھا سڑک کنارے کراچی سے خیبر تک قائم کھوکھوں ،ڈھابوں اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں پر ملازمت کرنے والوں کو عام طور پر چھوٹو کے نام سے پکارا جاتاہے غلام رسول کو چائے کے ہوٹل پر ملازمت کرنے پر چھوٹو کا نام ملا اسے جرائم کی دنیا کا ڈان چھوٹو گینگ بنانے میں اور اہم مقام دلانے میں جہاں پولیس کی روائتی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ خاندانی ناہمواریوں قبائلی رسم و رواج اور علاقہ کے سرداری نظام نے اہم کردار اداکیا علاقہ مکینوں کے مطا بق غلام رسول توشر وع سے ہی مزدور پیشہ بچہ تھا جوکہ بچپن سے ہی مزدوری کرنے کے لئے ہوٹل پر ملازمت کرنے لگا

Arrested

Arrested

اس دوران اس کے بھائی رسول بخش کو قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر کے غلام رسول کو پولیس کی طرف سے جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے تشدد نے جرائم کی دنیا میں آنے پر مجبور کردیا تو اس نے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے علاقہ کے ممبر صوبائی اسمبلی کے ہاں بطور باڈی گارڈ بھی ڈیوٹی سرانجام دی اور پولیس کے انفارمر کے طور پر بھی کام کیاپھر خود مویشی چوروں اغواء برائے تاوان اوردوسرے جرائم کرنے والے گروہوں میں شامل ہوکر کام کرنے لگا جلدہی کچے کے علاقے میں محفوظ پناہ گاہیں ہونے کی وجہ سے جلد ہی بدنام زمانہ ڈاکو بن گیا اغوابرائے تاوان کے بڑے گروہوں سے رابطے ہوتے تو وہ گروہ لوگوں کو اغوا کر کے اس کے پاس کچے کے علاقے میں پہنچا دیتے جن کے تاوان کی رقم سے اپنا حصہ لے لیتا تھا چھوٹوگینگ کی کاروائیوں سے کئی گروہ اس کے گینگ میں شامل ہوگئے جس سے چھوٹو گینگ مزیدمضبوط ہوگیا تو پھر اس گینگ نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی بڑی وارداتوں کی معمول بنا لیا ان کاروائیوں کے بعد پولیس نے اس گینگ کے خلاف 2010 میں آپریشن کیا تو چھوٹو گینگ کے ساتھیوں نے کچے کے علاقے روجھان میںپولیس کے اعلیٰ افسران کے سامنے ہتھیارڈالنے کااعلان کیا تھا چھوٹو اور اس کے ساتھی گھیراتنگ ہونے پر بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں چلے گئے پولیس نے کچے کے علاقوں کوجانے والے راستوں پر چیک پوسٹیس قائم کردیں اور ایک بار پھر کچے کے علاقہ میں اپنی عمل داری قائم کرلی اور وارداتوں کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا اس گینگ نے ایک ضلعی افسر کو اغوا کرلیا

تاوان وصول کر کے اسے رہا کیا جس پر حکومت پنجاب نے2013میں چھوٹو گینگ کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا تو چھوٹو گینگ نے چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 10پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا جس میں سے دوپولیس اہل کاروں کو مزاحمت کرنے پر شہیدکردیا گیا جبکہ بقیہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کے لئے ڈاکوئوں سے مذاکرات کئے گئے جس کے نتیجہ میں چھوٹو نے مختلف جیلوں میں قید اپنے کزن بہادر خان سمیت انتہائی مطلوب ڈاکوئوں خالد کجلانی اوراسحاق چنگوانی کے علاوہ کالعدم تنظیموں کے دیگر ساتھیوں کو چھڑوا کر یرغمالی 8پولیس اہلکاروں کو رہا کر دیا تواس ساری کاروائی کے بعد چھوٹو گینگ کے حوصلے مزید بڑھ گئے تو دیگر علاقوں سے جرائم پیشہ افراد اس کے گینگ میں شامل ہوگئے تو اس گینگ نے اس علاقہ کے وسیع رقبے پر قبضہ کر لیا انہوں نے بنکرتعمیر کر لئے تو یہ علاقہ مکمل نوگرایریا بن گیا تو قانون کی عمل داری کے لئے ایک بارپھر2014 میں پولیس نے آپریشن شروع کیا تواس میںایک اے ایس آئی شہیداور دوجوان زخمی ہوئے چھوٹو گینگ کے پاس جدید خطرناک اسلحہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے آئی جی پنجاب نے فضائی دورہ کیا توان کے ہیلی کاپٹر پر راکٹ بھی فائر کیاگیا تھا بعدازاں پولیس نے پولیس انسپکٹر غلام محبتبیٰ گورمانی کی شہادت میں ملوث چھوٹو گینگ کے دوبڑے ڈاکوئوں اکرم( اکری) سکھانی اور غفور جتانی کو غازی گھاٹ کے علاقہ میں مقابلہ میں ماردیا لیکن چھوٹو گینگ کامکمل خاتمہ نہ ہوسکا جبکہ 2015 میں اس دوران دریائے سندھ میںپانی کی سطح بلند ہونے اورسیاسی مصلحتوں کے باعث یہ آپریشن روک دیا گیا۔

Police

Police

2 اپریل کو ڈی پی او ڈیرہ غازی خاں مبشر میکن نے چھوٹو گینگ کے خلاف ضرب آہن کے نام سے پانچواں آپریشن شروع کیا جس میں 8 اضلاع کی پولیس کے جوان شامل تھے آپریشن کے آغاز پرکئی نوگوایریاز کو ختم کیا اور چھوٹو گینگ کے خلاف پیش قدمی جاری رکھی ہوئی تھی کہ12اپریل کو کشتی پر سوار ہوکر پولیس اہلکار کاروائی کے لئے جارہے تھے کہ چھوٹو گینگ کے آدمیوں نے دریامیں ان کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے گئے جبکہ سات اہلکاروں کو شہید کردیا گیا پولیس اہلکاروں کی شہادت اور یرغمال بنائے جانے کو ماہرین نے ناقص حکمت عملی قرار دیا جس پر پولیس کی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگ گیالیکن چھوٹو گینگ نے آپریشن ضرب عضب سے بچنے کے لئے بھاگ سوئے کالعدم تنظیموں اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بھی چھوٹو گینگ میں پناہ لئے ہوئے ہیں جبکہ کئی غیر ملکی خطرناک جنگجوئوں کی موجودگی کے بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں جن کی وجہ سے چھوٹو گینگ ایک منظم اور خطرناک طریقہ سے آپریشن کرنے والے سیکورٹی جوانوں کے خلاف مزاحمت کررہا ہے پاک فوج کی طرف سے چھوٹو گینگ کے خلاف اپریشن کی کمان سنبھالنے سے اس علاقہ کے لوگوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ یہ علاقہ اب ہمیشہ کیلئے چھوٹو گینگ اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کے قبضہ سے آزاد ہوسکے گا علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کے سہولت کاروں اور ان کے ہمدرد پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کے لئے غلام رسول المعروف چھوٹو کا زندہ پکڑا جانا ضروری اور انتہائی ناگزیر ہے

Asghar Ali Javed Kamraid

Asghar Ali Javed Kamraid

تحریر: اصغر علی جاوید کامریڈ